Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پوسٹر پر تصویر نہیں‘،انیلا پھر بھی انتخابی میدان میں

’’میں حجرے اور مسجد میں میں نہیں جا سکتی ہوں، بازار تک نہیں جا سکتی ہوں اور جب کسی کے گھر بھی جانا ہو تو وہ بھی پردہ کر کے جاتی ہوں، خود ہی اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہوں۔‘‘
یہ کہنا ہے مردان کے گاؤں شہباز گڑھی کی انیلا شہزاد کا جو صوبائی اسمبلی کی جنرل سیٹ پر پی کے 56 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔
پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات ہوں گے جس کے لیے امیدوار اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے انتخاب لڑنا کسی مشکل سے کم نہیں اور یہ مشکل اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ان کو نہ پارٹی اور نہ تنظیمی سطح پر کسی قسم کی مدد حاصل ہو۔
35 سالہ انیلا شہزاد کو بھی اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے وہ مرد امیدواروں کی طرح نہ بھرپور انتخابی مہم چلا سکتی ہیں اور نہ ہی اس کے پاس اُن جیسے وسائل ہیں۔
وہ پردہ کر کے محرم یا رشتہ دار خواتین کے ساتھ انتخابی مہم گھر گھر جا کر چلا رہی ہیں اور ایک آدھ جلسہ بھی کر لیتی ہیں۔
انہوں نے حسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی مہم کے لیے وہ پوسٹرز پر اپنی تصویر بھی نہیں لگا سکتیں۔
’’میں انتخابی مہم کے لیے پردے میں جاتی ہوں اگر دور جانا ہو تو محرم کو ساتھ لے جاتی ہیں اگر قریب ہے تو تین چار رشتہ دار خواتین کے ساتھ چلی جاتی ہوں۔‘‘
انیلا شہزاد خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون نہیں جن کے پوسٹر پر ان کی تصویر نہیں لگ سکی، اس سے قبل عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی ترجمان ثمر بلور جب 2018 میں ضمنی انتخابات لڑ رہی تھیں تو اس وقت بھی ان کے پوسٹر پر نہ ان کی تصویر تھی نہ ہی اصل نام بلکہ ان کے لیے ’بیگم ہارون بلور‘ کے الفاظ لکھے گئے۔
اس کے علاوہ 2021 میں بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مومنہ الہام اور پاکستان تحریک انصاف کی پروین طاہر کے پوسٹرز پر ان کی تصاویر نہیں چھپی تھیں۔

روایات کی وجہ سے انیلا شہزاد انتخابی پوسٹرز پر تصویر بھی نہیں لگا سکتیں۔ (فوٹو: سکرین گریب اردو نیوز)

انیلا شہزاد 2009 سے ایک سیاسی کارکن ہیں اور ان کی آئیڈل پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی مردان ڈویژن کی صدر اور جنرل سیکریٹری رہ چکی ہیں۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں کم سے کم پانچ فیصد خواتین امیدوار نامزد کرنے کی پابند ہیں۔ اس مرتبہ ملک میں خواتین امیدواروں کی تعداد میں 82 فیصد اضافہ ہوا اور قومی اور صوبائی اسمبلی نشستوں پر 882 خواتین امیدوار ہیں۔
قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 312 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے 570 خواتین امیدوار مقابلے میں ہیں۔ خیبر پختونخوا سے 69 خواتین جنرل نشستوں پر امیدوار ہیں، ان میں 41 سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ اور 28 آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
انیلا شہزاد کا کہنا ہے کہ پارٹی کی جانب سے پانچ فیصد کوٹہ مکمل کرنے کے لیے ان کو ٹکٹ جاری کیا گیا تاہم ان کو شکوہ ہے کہ ان کو تنظیمی سطح پر کوئی حمایت حاصل نہیں اور وہ سب کچھ خود کر رہی ہیں۔
انیلا شہزاد کو جب ٹکٹ دیا جا رہا تھا تو شوہر کی حمایت کے باجود ان کو خاندان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
’’ہمارا گھرانہ بھی روایتی ہے اور پشتون معاشرے میں خواتین کا سیاست میں حصہ لینے کو عجیب بات سمجھا جاتا ہے۔ میرے خاندان میں کچھ لوگ چاہ رہے تھے کہ میں حصہ لوں جبکہ کچھ لوگ حق میں نہیں تھے لیکن میں نے ان کو قائل کیا کہ میں اپنے علاقے کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
ان کے مطابق ’’میں آج یہاں تک اپنی شوہر کی سپورٹ کی وجہ سے یہاں آئی ہوں۔ میرے قریبی رشتہ داروں نے مخالفت کی لیکن شوہر نے ساتھ دیا۔ وہ خود بھی تعلیم یافتہ ہیں۔‘‘
انیلا شہزاد نے اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ وہ میٹرک میں تھیں جب ان کی شادی ہو گئی تاہم شادی کے بعد انہوں نے شوہر کی خواہش پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

انیلا شہزاد خود گھر گھر جا کر الیکشن مہم چلا رہی ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب اردو نیوز)

انیلا شہزاد کا دعویٰ ہے کہ 10 سال قبل ان کے گاؤں کی خواتین ووٹ ڈالنے سے گریز کرتی تھیں تاہم ان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے خواتین نے ووٹ ڈالنا شروع کیا۔
وہ جب اپنے علاقے میں انتخابی مہم کے لیے نکلتی ہیں تو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’’مردان جیسا معاشرہ کتنا مشکل ہے خواتین کے لیے، جب مہم کے لیے نکلتی ہوں تو ہر بندہ آپ کو گھور رہا ہو گا کہ یہ کیا کرنے جا رہی ہے یہ کس کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے یہ کیوں وہاں گئی، یہ سب کچھ میں برداشت کر رہی ہوں، یہی سوچ کر شاید کبھی کوئی تبدیلی آ جائے۔‘‘
 ان کا گھرانہ تعلیم یافتہ ہے اور وہ خاندان کی پہلی خاتون ہیں جو عملی سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں۔
انیلا شہزاد خواتین کے لیے ان کے گھروں کی دہلیز پر ایسے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہیں جو ان کو باروزگار بنائیں۔
’’میں انتخابی مہم میں خواتین سے یہ کہتی ہوں کہ میں آپ لوگوں کے لیے کھڑی ہوں اور آپ ایک مرد ایم پی اے سے بات کرنے لیے یا کسی کام کے لیے نہیں جا سکتیں اور اپنے مسائل بیان نہیں کر سکتیں، آپ خاتون سمجھ کر میرے گھر آ سکتی ہیں اور اپنے مسائل مجھ سے اچھے طریقے سے بیان کر سکتی ہیں۔‘‘
انیلا شہزاد کے مقابل 11 امیدوار کھڑے ہیں جن میں چار آزاد امیدوار ہیں۔
ان میں عوامی نینشل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف، مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی جیسی پارٹیوں کے امیدوار کھڑے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ وہ اپنے حلقے کے مضبوط امیدوار ہیں اور ان کے سپورٹرز بھی ہیں۔
’’میں نے ہمت نہیں چھوڑی اور انتخابی مہم چلا رہی ہوں، ان کی اتنی زیادہ سپورٹ اور میں صرف چند لوگوں کے ساتھ تو مجھے فخر ہوتا ہے۔‘‘

انیلا شہزاد خاندان کی پہلی خاتون ہیں جو عملی سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب اردو نیوز)

ان کے شوہر ملک شہزاد خان کا کہنا ہے کہ ’’قدامت پرست پشتون معاشرے میں انتخابی مہم میں اہلیہ کی مدد مشکل ضرور ہے لیکن میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مرد اور خواتین کے حقوق برابر ہیں اور وہ ہر کام کر سکتی ہیں۔
ملک شہزاد خان نے مزید کہا کہ ان کی اہلیہ کے مقابل کھڑے امیدوار انتخابی مہم پر کروڑوں خرچ کر رہے ہیں اور ہم محدود بجٹ کے ساتھ چل رہے ہیں تاہم انیلا شہزاد کا کہنا ہے کہ ’’میرا حوصلہ بلند ہے اور مسلسل کوشش جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہوں اور ہمت نہیں ہاروں گی۔‘‘

شیئر: