Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 اردونیوز الیکشن فورم: معيشت اور صرف معيشت کے بارے میں سوچنا ہوگا، اوورسیز پاکستانیوں کی رائے

پاکستان میں انتخابی مہم اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے اور عوام اپنے نئے نمائندوں کو منتخب کرنے جارہے ہیں۔
اردونیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بیرون ملک پاکستانی کیا سوچ رہے ہیں؟ ان کے نزدیک نئی حکومت کی ترجیحات کیا ہونی چاہیں؟ پاکستان کو معاشی، خارجی اور داخلی محاذ پر کیا چیلنجز ہیں اور سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے جو وعدے کیے کیا وہ ان سے مطمئن ہیں۔
اردونیوز الیکشن فورم میں کمیونٹی کی شخصیات کو مدعو کرکے ان کی رائے معلوم کی۔
فورم  کے شرکا میں مشرف دور میں سابق وفاقی وزیر چوہدری شہبازحسین شامل تھے جو ایک طویل عرصے سے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور کاروبار کے ساتھ کمیونٹی کے ساتھ مضبوط رابطہ رکھتے ہیں۔
دیگر شرکا میں پاکستان ویلفیئر سوسائٹی کے عہدیدار شریف زمان، معروف سماجی کارکن محسن غوری، بزنس مین عبدالخالق مہر اور چوہدری وقاص شامل تھے۔
فورم کے شرکا کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ’ہمیں پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر ملک کے لیے سوچنا ہوگا۔ جب تک ہم پاکستانی بن کر نہیں سوچیں گے ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ہمیں صرف معیشت کے بارے میں سوچنا ہوگا‘ 
چوہدری شہباز حسین نے فورم کے سوالات کےجواب میں کہا ’ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنے والی حکومت کے لیے بہت سخت ٹاسک ہوگا۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہوگی۔‘
’حکومتیں اگر داخلی معاملات کواچھے طریقے سے سلجھا سکیں تو پھر خارجی امور پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہوگی۔‘
نئی حکومت کی ترجیحات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’بدقسمتی سے پچھلےعرصے میں پاکستان کی معاشی صورتحال اچھی نہیں رہی۔ آنے والی حکومت سے یہ توقع ہوگی کہ وہ آتے ہی کم از کم معیشت کے سدھار کےلیے چھ مہینے یا ایک سال کا ایجنڈا دے گی اور اندرون ملک مہنگائی ختم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کرے گی۔‘
بقول ان کے’ لوگوں کو روزگار چاہیے۔ روزمرہ کی ضروریات ہیں اور مہنگائی ہے۔ حکومت نوجوان طبقے کو مطمئن کرنے کے لیے معاشی طور پر آئندہ کالائحہ عمل طے کرے اور لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے یکسوئی سے کام کیا جائے۔‘
ان کے مطابق ’ آنے والی حکومت  کے لیے بہت سارے ٹاسک ہیں۔ آج ہمیں جہاں معاشی استحکام کی ضرورت ہے وہیں لا اینڈ آرڈر سچویشن کو بھی دیکھنا ہے ۔ سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی چیز انصاف کاحصول ہے۔‘

آنے والی حکومت کو بہت سے محاذوں پر اور بیک وقت کام کرنا پڑے گا، معیشت کی بحالی میں اوورسیز پاکستانی کردار ادا کرسکتے ہیں (فوٹو: اردونیوز)

’میں سمجھتا ہوں کہ آنے والی حکومت کو بہت سے محاذوں پر کام کرنا پڑے گا اور بیک وقت کرنا پڑے گا۔ معیشت کی بحالی میں اوورسیز پاکستانی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔آئی ایم ایف کی جو شرائط ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ ہمارے برادر ممالک ماضی میں بہت زیادہ سپورٹ کرتے رہے ہیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جو سپورٹ کی ہے اس کے مطابق ہم نتائج نہ دے سکے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا ’حکومت اگر اوورسیز پاکستانیوں کو وہ یہ گارنٹی دینے میں کامیاب رہی کہ ہم آپ کے لیے کچھ کرنے جارہے ہیں تو ان کی جانب سے ترصیلاتِ زر میں اضافہ ہو گا ۔‘
اردونیوز فورم کے سوال پر کہنا تھا’یہ بدقسمتی رہی کہ خلیجی ممالک میں ہم پاکستانی کی حیثیت سے کم اور پارٹی کی حیثیت سے زیادہ جانے گئے۔ ہم نے پاکستانیت کے ماحول کو تباہ کیا۔  پاکستانی کے بجائے کسی ایک یا دوسری جماعت کا رکن کہلوانا زیادہ پسند کرنے لگے مگر آج ماحول تبدیل ہوچکا ہے۔‘
’ ہم پاکستانی ہیں اور ہمیں یہاں بیٹھ کر بحیثیت پاکستانی کے سوچنا چاہیے۔ ملک میں کسی کی بھی حکومت ہو۔ ہم ان سے اختلاف بھی کریں گے۔ اتفاق بھی کریں گے لیکن بیرون ملک ہمیں ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنی امیج کو بہتر کرنا ہے۔‘
چوہدری شہباز نے کہا ’ میں یہ بات حقائق کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات زیادہ شاندار رہے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو بھی حکومت آئے وہ  برادر ملکوں سے اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنائے۔ سعودی عرب، پاکستان کو ایک خوشحال اور مضبوط ملک دیکھنے کا خواہشمند ہے۔‘
محسن غوری نے ملکی مسائل کی ایک وجہ سیاسی ایلیٹ کلاس کو قرار دیا اور کہا کہ ’ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام میں مایوسی ہے۔ عوام جس تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں جس تبدیلی کی انہیں نظر نہیں آتی۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔ مستحکم سیاسی حکومت ہونی چاہیے اور اس کی کریڈیبلٹی ہو جو یہ لوگوں کے مسائل کو حل کرے۔‘
اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’مملکت میں سب سے کمیونٹی کا بڑا حصہ لیبر کلاس ہے اور وہ  مسائل کا وہ شکار ہے۔ حکومت کو ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہونے دینا چاہئے۔ جو بھی حکومت ہو اسے بھی چاہیے کہ وہ تجربہ کار اور ماہر افراد تیار کرکے بیرون ملک بھیجے۔‘

میرا نہیں خیال کہ اسمبلی میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے نشستیں مختص کرنے سے مسائل حل ہوں گے۔(فوٹو: اردونیوز)

محسن غوری نے کہا ’ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی ہر مشکل وقت میں سعودی عرب نے مدد کی۔ چاہے وہ معاشی مشکلات ہوں سیاسی مشکلات ہوں یعنی کبھی بھی پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا۔ جتنے زیادہ دوست ہوں گے اتنا ہی زیادہ پاکستان مستحکم ہوگا۔ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔’
اردونیوز فورم کے ایک سوال پر کہا ’ پاکستانی ہونا ہمارے لیے فخر ہے۔ اللہ نے ہمیں بہترین انسانی قوت صلاحیت دی ہیں۔اپنے آپ کو کمتر سجھیں گے تو دنیا میں ترقی نہیں کرسکتے۔ اس لیے پاکستانی، مسلمان اور ایک اسلامی ریاست کا فرد ہونے پر فخر ہونا چاہئے اور میں سجھتا ہوں کہ اس کا اظہارہمارے عمل اور کردار سے نظر آنا چاہئے۔‘
چوہدری وقاص نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا’ پاکستان اور سعودی عرب میں تعلقات کے حوالے سے بات کریں تو ہمارے مضبوط تعلقات ہیں اور یہ کسی طور کمزور نہیں ہوسکتے۔‘
انہوں نے تجویز دی کہ ’آنے والی حکومت سعودی عرب میں جاری ترقیاتی منصوبوں کےلیے اپنے سکلڈ ورکرز کو یہاں بھیجے۔ ہمیں ترسیلات زر میں بہتری کے لیےاس  پر فوکس کرنا پڑے گا۔ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں سکلڈ ورکرز بھیجنے کے معاملے کو ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔‘
 اردونیوز فورم کے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا’ بحیثیت اوورسیز پاکستانی تمام پارٹیوں کے منشور دیکھے ہیں۔ کسی کے پاس واضح پالیسی نہیں۔ پارٹی کے منشور میں اوورسیز کو ترجیح نہیں دی گئی ہے جبکہ پاکستان کا مین اثاثہ اوورسیز ہیں۔ سب سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان بھیجنے والے اوورسیز پاکستانی ہیں انہیں ووٹ ک کا حق دینا چاہئے تھا جو ابھی تک نہیں دیا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا ’میرا نہیں خیال کہ اسمبلی میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے نشستیں مختص کرنے سے مسائل حل ہوں گے۔‘
چوہدری وقاص نے بھی اس رائے کا اظہار کیا کہ پاکستانی ہونا سب کے لیے فخر ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم مختلف کمیونٹیز میں بٹے ہوئے ہیں لیکن اب لوگ واپس آرہے ہیں۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچ رہے ہیں مختلف فورمز پر اکٹھے ہوکر ایک پاکستانی کی حیثیت سے بات کرہے ہیں۔‘
شریف زمان کے خیال میں ’ پاکستان کے موجودہ حالات میں جو بھی حکومت آئےاسے سب سے پہلے لا اینڈ آرڈر ٹھیک کرنا چاہے۔ دوسری ترجیح کاروبار ہونا چاہے۔ نوجوانوں کو روزگار ملے، مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے۔ حکومت کی طرف سے اس بات کی ضمنت دی جانی چاہیے کہ  کہ جوبھی انویسٹر آئے اسے یہ اطمینان ہو کہ اس کا سرمایہ محفوظ رہے گا۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا ’ ہرحکومت یہ کہتی ہے کہ اوور سیز ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، وعدے اور اعلانات کیے گئے لیکن ان پرعمل نہیں ہوا۔ خلیج کی بات کریں تو ملک میں بھیجے جانے والے زر ترسیلات میں سب سے زیادہ کنٹری بیوشن سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کا ہے۔‘
’ اگر آنے والی حکومت لا اینڈ آرڈر ٹھیک کردے تو یقین کریں کہ اوورسیز اپنے ملک میں انویسٹ کریں گے اورکسی ملک سے مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
شریف زمان اس بات سے متفق تھے کہ’ جب ہم بیرون ملک ہیں تو ہمیں پارٹی نہیں بلکہ پاکستان کا سوچنا چاہئے۔ انفرادی طور پر اپنے سرکل میں جو مرضی بات کریں مگر جب کمیونٹی کی سطح پر بات کریں تو ہمیں ایک ہونا چاہئے۔‘
عبدالخالق مہر کا کہنا تھا ’یہ درست ہے کہ اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت کےلیے ریڑھ کی ہڈی ہیں اور اس کا اندازہ سب کوہوچکا ہے مگر اب ان کے مسائل کے حل کےلیے حکومتوں کو آگے آنا ہوگا۔ اوورسیز پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں اور ریلیف دینے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت ہمارے دل جیت سکے۔‘
 پاکستان کے معاشی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’ 92 کے بعد انڈسٹری یا کمپیوٹر ٹیکنالوجی بہت تبدیل ہوئی ہم اس کا ساتھ نہیں دے سکے۔ بات یہ ہے کہ ہم سکلڈ ورکرز تیار نہیں کرسکے۔  ٹیکنیکل ایجوکیشن کی بہت کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سعودی عرب سمیت خلیجی ملکوں کو سکلڈ لیبر فراہم کرنے میں پیچھے ہیں۔

شیئر: