Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے‘

وولکر ترک نے بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کا مطالبہ بھی کیا (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے (او ایچ سی ایچ آر) کے سربراہ نے کہا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے جمعے کے روز کہا کہ ’او ایچ سی ایچ آر نے کئی سال تک اس بات کو رپورٹ کیا ہے کہ داخلی استثنٰی برقرار نہیں رہ سکتا۔‘
انہوں نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کا استثنٰی قانون کی خلاف ورزیوں سے جڑا ہوا ہے جس کو بین الاقوامی جرم میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے جنگ سے متعلق تمام فریقوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ استثنٰی کو فوری طور پر ختم کریں اور ان ہر وہ قدم جو بین الاقوامی قوانین کی مناسبت سے جرم میں آتا ہے، اس کی فوری طور پر آزاد، غیرجانبدارانہ، موثر اور شفاف تحقیقات مکمل کریں۔‘
 انہوں نے ان سے انسانی بنیادوں پر سیزفائر اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کے احتساب کیا جائے۔
پچھلے مہینے عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو کہا تھا کہ وہ فلسطین کے خلاف نسل کشی کے اقدامات روکے اور عام شہریوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے، اگرچہ جنوبی افریقہ جو معاملے کو عالمی عدالت میں لے کے کر گیا تھا، کی جانب سے دی گئی درخواست میں سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم ایسے احکامات جاری نہیں کیے گئے تھے۔
ایک اور سماعت کے موقع پر منگل کو جنوبی افریقہ نے عدالت پر زور دیا تھا کہ وہ ایک ایسی غیرمشروط رائے جاری کرے جس میں اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔

 


غزہ میں سات اکتوبر سے جاری جنگ کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے (فوٹو: روئٹرز)

جنوبی افریقہ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام معاملے کو تصفیے کی جانب لے جانے میں مدد دے گا۔
اس کے علاوہ غزہ کے مہاجرین کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ سے نمٹتے ہوئے ایک نازک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔
اس کے سربراہ فلیپ لیزیرنی کا کہنا ہے کہ ’میں انتہائی افسوس کے ساتھ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ فنڈنگ کی بندش اور اسرائیل کے دباؤ کی وجہ سے یو این آر ڈبلیو اے ٹوٹنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔‘
خیال رہے پچھلے برس اکتوبر کی سات تاریخ کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس کے جواب میں اسرائیل نے ایک بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا جو اب بھی غزہ میں جاری ہے جبکہ جنگ فلسطین کے دیگر شہروں میں بھی پھیل چکی ہے۔
اس جنگ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی بتائی جاتی ہے جبکہ مہاجرین کی حالت زار کے حوالے سے پہلے بھی امدادی ادارے تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

شیئر: