شریف منصور نے کہا ہے کہ بغداد کے انتہائی محفوظ علاقے میں اس قاتلانہ حملے نے ان اندھیروں پر نمایاں روشنی ڈالی ہے جن کا عراق میں صحافیوں کو سامنا ہے۔
سی پی جے کمیٹی کے عہدیدار نے حکام سے حملے کے ذمہ داروں کی جلد نشاندہی اور سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
میڈیا آؤٹ لیٹس کی رپورٹس اور اس کی تنظیم کے سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے بیانات کے مطابق نامعلوم افراد کے مسلح اور نقاب پوش گروپ نے 22 فروری کو فخری کریم کی کار پر کم از کم 17 گولیاں چلائیں اور دو گاڑیوں میں فرار ہو گئے۔
فخری کریم عراق کے المدی اخبار کے پبلشر اور ایڈیٹر انچیف، بغداد میں المدی فاؤنڈیشن فار میڈیا، کلچر اینڈ آرٹس کے زیراہتمام کتاب میلے میں شرکت کے بعد واپس جارہے تھے۔
بغداد کے انتہائی محفوظ علاقے القدسیہ ضلع میں یہ حادثہ رات تقریباً 9 بجے پیش آیا جہاں عراقی حکومت کے سیکورٹی ادارے اور غیر ملکی سفارت خانے قائم ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں المدی نے اسے ’بزدلانہ قتل کی کوشش‘ قرار دیتے ہوئے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
عراق کے وزیر داخلہ عبدالامیر الشماری نے خصوصی سیکورٹی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس آپریشنز کو بڑھا دے تاکہ ذمہ داروں کو جلد پکڑ کر قانونی کارروائی کی جا سکے۔
فخری کریم عراق کے معروف صحافی ہونے کے علاوہ ایسے سیاست دان ہیں جنہوں نے سابق عراقی صدر جلال طالبانی کے مشیر کے طور پر کام کیا۔
فخری کریم سابق عراقی صدر صدام حسین کے سخت ناقد رہے ہیں اور ان کا شمارہ المدی عراق کے چند آزاد اخبارات میں شمار ہوتا ہے۔