Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا کا سیاحوں کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کرنے کا فیصلہ

کاغان اور ناران میں 76 ہزار 476 سیاح گھومنے پھرنے آئے۔ ٖ(فائل فوٹو: اے ایف پی)
 ملک بھر میں شدید گرمی کی لہر کے باعث شہریوں نے پرفضا مقامات کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔
ملک کے تقریباً تمام ہی شہروں سے سیاح گھومنے کے لیے صوبہ خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات کا رُخ کر رہے ہیں۔
ہفتے اور اتوار کے روز سیاحوں کا رش اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ہوٹلوں اور ریسٹ ہاوسز میں کمرے تک دستیاب نہیں ہوتے۔
خیبرپختونخوا کی ٹورازم اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 14 مئی سے 21 مئی تک ایک ہفتے کے دوران 4 لاکھ 20 ہزار 738 سیاحوں نے خیبرپختونخوا کے مختلف مقامات کی سیر کی ہے۔
سب سے زیادہ رش گلیات میں رہا جہاں سیاحوں کی تعداد 2 لاکھ 14 ہزار ریکارڈ کی گئی جس کے بعد کاغان اور ناران میں 76 ہزار 476 سیاح گھومنے پھرنے آئے۔
محکمہ سیاحت کے اعداد و شمار کے مطابق، سات دنوں میں 52 ہزار 740 سیاح مالم جبہ گئے جبکہ 43 ہزار 274 لوئر چترال اور 33 ہزار 550 سیاحوں نے اپر دیر کا رخ کیا ۔
مقامی سیاحوں کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں نے بھی خیبرپختونخوا کے پرفضا مقامات کا رُخ کیا۔ ٹورازم اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 7 دنوں میں 442 غیرملکی سیاحوں نے ان علاقوں کا رُخ کیا جن میں سے سب سے زیادہ لوئر چترال گئے جن کی تعداد 209 ہے جبکہ 142 کے قریب غیرملکی سیاحوں نے سیرسپاٹے کے لیے اپرچترال کا رُخ کیا۔

سیاحوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟

 خیبرپختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ٹورازم کا سیزن یکم جون سے شروع ہوتا ہے مگر اس بار گرمی کی شدت کی وجہ سے مئی میں ہی سیاحوں کی بڑی تعداد نے پرفضا مقامات کا رُخ کر لیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ دو برسوں کا ڈیٹا دیکھا جائے تو رواں سال سیاحوں کا رش نسبتاً زیادہ ہے اور وہ امید کررہے ہیں کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد اس رش میں مزید اضافہ ہوگا۔‘
صوبائی محکمہ سیاحت کے ترجمان کے مطابق، چترال کی وادی کیلاش میں 13 مئی سے 17 مئی تک چلم جوشٹ فیسٹیول جاری تھا جس کو دیکھنے کے لیے سیاحوں کی بڑی تعداد نے چترال کا رخ کیا۔

14 مئی سے 21 مئی تک ایک ہفتے کے دوران 4 لاکھ 20 ہزار 738 سیاحوں نے خیبرپختونخوا کے مختلف مقامات کی سیر کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ڈی جی کیلاش ویلیز ڈویلپمنٹ اتھارٹی منہاس الدین کے مطابق کیلاش فیسٹیول کے تینوں روز رش کی وجہ سے وادی کے تمام ہوٹلوں اور ریسٹ ہاوسز میں کمرے دستیاب نہیں تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’وادی کیلاش آنے والے سیاحوں کی سہولت کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے  گئے تھے اور سیاحوں کی سکیورٹی کے لیے ٹورازم پولیس اور کیلاش ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اہلکار تعنیات کیے گئے تھے جبکہ ٹریفک کی روانی کے لیے ٹریفک پولیس اہلکار بھی ڈیوٹی پر موجود رہے۔‘

  سیاحوں کی سہولت کے لیے کون سے اقدامات کیے گئے؟

خیبرپختونخوا کے محکمہ سیاحت کے ترجمان سعد بن اویس نے بتایا کہ ہر سیاحتی مقام پر ٹورازم پولیس اور ٹورسٹ فسیلیٹیشن مراکز قائم کئے گئے ہیں جب کہ مختلف مقامات پر رہنمائی کے لیے سائن بورڈز بھی نصب کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’سیاحوں کی مدد کے لیے کال سنٹر 24 گھنٹے فعال ہے جہاں کال کرکے سیاح ہر قسم کی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔‘
ایڈونچر ٹورازم کے فروغ کے لیے گلیات میں ایڈونچر تھیم پارک بنایا گیا ہے جو جلد ہی صوبے کے دیگر سیاحتی علاقوں میں بھی بنائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جون کے آخری ہفتے میں شندور کے مقام پر پولو فیسٹول کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے لیے شدومد سے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

مشیر سیاحت زاہد چن ذیب نے کہا کہ حکومت نے سیاحوں کی آسانی کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔(فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پری مون سون اور مون سون کی بارشون اور ممکنہ سیلاب کے خطرے کی پیشگی اطلاع دی گئی ہے اور جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو سیاحوں کو غیر ضروری سفر نہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔‘

 سیاحوں کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کرنے کا فیصلہ

مشیر سیاحت زاہد چن ذیب نے کہا کہ حکومت نے سیاحوں کی آسانی کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا آغاز چترال سے کیا جائے گا اور آنے والے دنوں میں یہ سروس دیگر مقامات سے بھی شروع کی جائے گی۔ مشیر سیاحت کے مطابق ہیلی کاپٹر سروس سے سیاحت میں مزید اضافہ ہوگا۔

 رش میں اضافے سے سیاحوں کو مشکلات

سیاحتی مقامات پر رش کے سبب مقامی ہوٹلوں اور دکانداروں کی چاندی ہو جاتی ہے اور وہ ہر چیز دگنی قیمت پر فروخت کرنا شروع کردیتے ہیں اور ٹورازم کال سینٹر کو سب سے زیادہ اسی حوالے سے شکایات موصول ہوتی ہیں۔
وادی کیلاش کی سیر کو جانے والے ایک سیاح حمید اللہ نے بتایا کہ ’کیلاش فیسٹول کے دوران ان سے کھانے اور رہائش کے لیے زیادہ پیسے وصول کیے گئے جبکہ ان کی سروس انتہائی غیر معیاری تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسے مواقع پر ہوٹلوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جانا چاہیے تاکہ سیاحوں کو غیرمعمولی نقصان نہ ہو اور اس علاقے کا مثبت تاثر ابھر کر سامنے آئے۔‘
چترال کے علاوہ ناران میں بھی ہوٹلوں اور ڈرائیوروں کے حوالے سے سیاحوں کے ساتھ ناخوشگوار واقعات پیش آتے رہے ہیں جب سیاحوں سے عام معمول کی نسبت بہت زیادہ پیسے وصول کیے گئے۔

شیئر: