بجلی کی پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں (آئی پی پیز) کے ساتھ پاکستان کی حکومت کے مذاکرات جاری ہیں۔
حکومت نے جہاں مختلف آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے کے معاملے پر بات چیت مکمل کرلی ہے وہیں اس وقت بھی سولر اور وِنڈ سے چلنے والے 45 پاور پلانٹس کے ساتھ اس کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
ان پاور پلانٹس کے بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے وفاقی حکومت سے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ وہ سولر اور وِنڈ انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرنے سے گریز کرے اور یکطرفہ بات چیت کے بجائے باہمی اتفاق رائے سے آگے بڑھے۔
اُنہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں سولر کی سرمایہ کاری پر بھی بُرا اثر پڑے گا اور ملک کی قابل تجدید توانائی کی مارکیٹ بھی متاثر ہو گی جس سے شمسی توانائی کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گا۔
بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے ان تحفظات کے بعد پاکستان میں سولر اور توانائی کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت کو پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدوں پر یک طرفہ نظرثانی سے گریز کرنا چاہیے۔
اُنہوں نے اس خدشے کو درست قرار دیا ہے کہ سولر پاور پلانٹس سے بجلی کی پیداوار بند ہونے سے پاکستان کی قابل تجدید توانائی کی مارکیٹ متاثر ہو سکتی ہے جس کے اثرات بالآخر شمسی توانائی کی قیمت پر بھی پڑیں گے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑیں گے:معاون خصوصی برائے توانائی
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی محمد علی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ وفاقی حکومت ملک کے وسیع تر مفاد میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو دیکھ رہی ہے۔
ہمارے سولر پاور پلانٹس کے ساتھ مذاکرات کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑیں گے۔
بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے خط میں مزید کیا کہا گیا ہے؟
پاکستان کے توانائی کے شعبے میں 2 ارب 70 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے ترقیاتی مالیاتی اداروں کے ایک گروپ نے وزیر توانائی، وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی کو ایک خط لکھا ہے۔
انہوں نے اس خط میں حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سولر اور وِنڈ انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید سے گریز کرے اور یک طرفہ بات چیت کے بجائے باہمی اتفاق رائے سے آگے بڑھے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی موجودہ پالیسی سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچے گا اور مستقبل میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
اسی خط کے متن میں قرض دہندگان نے توانائی کے شعبے میں پاکستان کے جاری چیلنجوں کو تسلیم کیا ہے، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ وسیع تر مشاورت کے بغیر معاہدوں میں ردوبدل سے خاص طور پر قابلِ تجدید توانائی میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جو اس شعبے کو وسعت دینے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
گروپ نے پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے کو درپیش چیلنجز کا متبادل حل تلاش کرے اور ان معاہدوں کا احترام کرے جس کی ابتدائی طور پر اس نے یقین دہانی بھی کرائی تھی۔
خط میں گروپ نے پاکستان کے توانائی کے مسائل کو حل کرنے میں حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر بھی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
