’قیامت کا منظر تھا، ہر طرف چیخ و پکار تھی، جب ٹرین پر حملہ ہوا تو سب نے جان بچانے کے لیے خود کو فرش پر گرایا اور اوپر سامان و بوریاں ڈالیں تاکہ گولیوں سے بچ سکیں۔‘
یہ الفاظ ہیں سبی کے رہائشی 78 سالہ محمد اشرف کے جو منگل کو بلوچستان کے ضلع کچھی (بولان) میں مسافر ٹرین پر ہونے والے حملے میں بال بال بچ گئے اور پھر حملہ آوروں کے ہاتھوں یرغمال بنے۔
محمد اشرف ان 80 مسافروں میں شامل ہیں، جنہیں عسکریت پسندوں نے بعد ازاں رہا کر دیا۔ انہوں نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پہنچنے پر اُردونیوز سے گفتگو کی اور ٹرین پر حملے اور بعد کی صورتحال بیان کی۔
مزید پڑھیں
-
بلوچستان: قلات میں خاتون کا خودکش حملہ، ایک اہلکار ہلاکNode ID: 886676
محمد اشرف کا کہنا تھا کہ وہ کوئٹہ سے اپنے رشتہ داروں سے ملنے جعفر ایکسپریس کے ذریعے لاہور جا رہے تھے۔ پنیر ریلوے سٹیشن سے نکلنے کے کچھ دیر بعد ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے نتیجے میں ٹرین پٹڑی سے اُتر گئی اور ہر طرف مٹی اُڑنا شروع ہوگئی۔
’اسی دوران فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور بھگدڑ مچ گئی۔ صورتحال بہت عجیب تھی، ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ لوگ خود کو بچانے کے لیے چھپنے اور اپنے اوپر سامان کی بوریاں ڈال کر گولیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’فائرنگ سے کئی لوگ ہلاک و زخمی ہوئے، اور ان کی بوگی میں بھی تین افراد زخمی ہوئے جن میں سے ایک شخص بعد ازاں دم توڑ گیا۔‘
’ٹرین پٹڑی سے اترنے کے بعد آگے نہیں جا سکی اور رُک گئی۔ جس کے بعد نامعلوم حملہ آور اندر داخل ہوئے، اُن لوگوں کو علیحدہ کیا جن کے ساتھ خواتین اور بچے تھے اور پھر انہیں آزاد کر دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چونکہ میں اکیلا تھا اور بزرگ تھا، اس لیے مجھے جانے دیا گیا تاہم بہت سارے لوگوں کو یرغمال بنالیا گیا۔ حملہ آوروں کی تعداد 100 سے زائد تھی اور وہ ہر طرف پھیلے ہوئے تھے، ان کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ وہ بلوچی بول رہے تھے لیکن مسافروں سے اردو میں بات کر رہے تھے۔ اُن کا لہجہ بہت سخت تھا جس کے باعث ان سے بات کرنا مشکل تھا۔‘

محمد اشرف نے بتایا کہ ’ہم تقریباً سات کلومیٹر تک پٹڑی سے نیچے ندی میں چلتے رہے۔ ہم میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل تھے کسی کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا، تو کسی کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے وہ ہمارے ساتھ ننگے پاؤں دو سے تین گھنٹے چلتے رہے۔‘
اسی دوران ہیلی کاپٹر پہنچے لیکن انہوں نے ہمیں بیٹھنے کے بجائے مسلسل چلنے کی ہدایت کی۔
’پنیر سٹیشن پہنچے تو فورسز نے ہمیں ریسکیو کیا اور مال گاڑی میں مچھ پہنچایا۔ پھر وہاں سے گاڑیوں میں کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ ٹرین جب پٹڑی سے اُتر گئی تو وہ چلنے کے قابل نہ رہی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید ڈرائیور ٹرین کو تیز رفتاری سے بھگا لیتا۔‘
’155 مسافر بازیاب، 27 دہشت گرد ہلاک‘
سکیورٹی ذرائع کے مطابق ’اب تک سکیورٹی فورسز نے 155 مسافروں کو دہشت گردوں سے باحفاظت بازیاب کروا لیا ہے اور 27 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔‘
ذرائع نے مزید کہا کہ جعفر ایکسپریس پر بزدلانہ حملے کے شدت پسند، افغانستان میں اپنے سہولت کاروں سے رابطے میں ہیں۔
’دہشت گردوں نے خود کش بمبار کو کچھ معصوم یرغمالی مسافروں کے بالکل پاس بٹھایا ہوا ہے۔‘
’محسن نقوی کہاں ہے ایس ایچ او کی مار والا‘
بازیاب ہونے والے مسافر ڈرے اور سہمے ہوئے تھے۔ ان میں سے بشیر احمد نامی مسافر نے مچھ ریلوے سٹیشن پر بتایا کہ دھماکے اور فائرنگ کے بعد ٹرین رکی تو مسلح افراد ٹرین کے اندر داخل ہوئے اور سب مسافروں کو نیچے اترنے کا کہا۔
’کچھ لوگوں نے اترنے سے انکار کر دیا لیکن میں یہ سوچ کر اپنی فیملی کے ہمراہ نیچے اترا کہ اگر حملہ آوروں نے مارنا ہوا تو ٹرین کے اندر بھی مار دیں گے۔ میرے ساتھ بیوی بچے بھی تھے اس لیے مسلح افراد نے مجھے چھوڑ دیا۔‘

ایک اور مسافر کا کہنا تھا کہ ’ کچھ مسافروں نے حملہ آوروں کے سامنے مزاحمت کی کوشش کی تو ان پر فائرنگ کر دی گئی۔ حملہ آوروں کی تعداد بہت زیادہ تھی ان کے پاس راکٹ لانچر، دستی بم، کلاشنکوف، واکی ٹاکی وغیرہ بھی تھے۔‘
بشیر احمد نے بتایا کہ ‘حملہ آوروں نے رہا کرنے کے بعد کہا کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا ورنہ گولی مار دیں گے۔‘
رہا ہونے والے مسافروں کی مچھ اور کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر رجسٹریشن کی گئی اور سرکاری ہسپتالوں سے امدادی ٹیمیں بھی سٹیشن پر بلائی گئیں۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے نے مسافروں کا معائنہ کیا، جس کے بعد مسافروں کو سحری سے کچھ دیر پہلے گھروں کو جانے کی اجازت دی گئی۔
کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر زندہ بچ جانے والے مسافروں کے لواحقین ان کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے اور جب ان کی ملاقات ہوئی تو جذباتی مناظر دیکھے گئے۔ وہ ایک دوسرے کو گلے لگا کر روتے رہے۔
اس دوران کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات اور ڈی جی پی ڈی ایم اے جہانزیب خان پہنچے، تو ایک یرغمالی مسافر کی رشتہ دار خاتون نے دونوں سرکاری افسران کو آڑے ہاتھوں لیا۔
انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا نام لے کر ان پر سخت تنقید کی۔
خاتون کا کہنا تھا کہ ’سرفراز بگٹی صرف ٹی وی پر بیٹھ کر تقریریں کرتے ہیں، خود پروٹوکول کے ساتھ گھومتے ہیں اور سڑکوں کو بند کر دیتے ہیں لیکن عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ محسن نقوی کہاں ہے ایس ایچ او کی مار والا۔ ہزاروں لوگوں کو مار دیا۔‘

خیال رہے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کچھ عرصہ پہلے بیان دیا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔
انہوں نے سرکاری افسران سے سوال کیا کہ ’جب انہیں حالات کی خرابی کا علم تھا تو ٹرین کو چلنے کیوں دیا؟ یہ آپ لوگوں کی ڈیوٹی ہے کس لیے عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘
’بہن کو لینے کے لیے آنا والا بھائی بھی یرغمال‘
خاتون نے اپنے ساتھ کھڑی رشتہ دار خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے دو سال بعد گھر جانا تھا اس کا بھائی اسے پنجاب سے لینے آیا تھا لیکن حملہ آوروں نے اس کے بھائی شاہ زیب کو یرغمال بنا لیا۔
’ہمارا بچہ ہمیں واپس کیا جائے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘
انہوں نے بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’روز روز مارنے سے اچھا ہے کہ ہمیں اکٹھے ایٹم بم مار دیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا خاندان قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے لٹے پٹے حالات میں ہجرت کرکے آیا۔ پہلے ہمیں ہندوستان سے نکالا گیا۔ اب بلوچستان سے نکالا جارہا ہے۔ ہم پنجاب جائیں گے تو بھوک سے مارے جائیں گے ہمارے بچے رزق کے لیے کہاں جائیں۔‘
’مغویوں کی حفاظت کے پیش نظر احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے‘
اس سے قبل بلوچستان کے صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی اور صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ بھی مسافروں سے ملے اور ان کی حال پرسی کی۔
ظہور احمد بلیدی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے غیر ملکی اداروں کا ہاتھ ہے، جو صوبے میں عدم استحکام پیدا کرکے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد کچھ بھی نہیں ہیں ان کے پیچھے جو ہینڈلر اور ماسٹرز بیٹھے ہوئے ہیں اصل دشمن وہی ہیں جن کی ایماء پر سب کچھ ہو رہا ہے۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ انصاف ہوگا۔ جنہوں نے یہ جرم کیا ہے وہ قانون کے کٹہرے میں آئیں گے۔
