صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ’احساس اپنا گھر‘ کے نام سے مکان کی تعمیر کے لیے بلاسود قرضے دینے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔
’اپنا گھر سب کے لیے‘ پروگرام کے تحت 15 لاکھ روپے قرضہ دیا جائے گا جس کی ادائیگی 7 برسوں میں قسط وار کرنا ہو گی۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے ہاؤسنگ ڈاکٹر امجد علی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایک لاکھ روپے سے کم آمدن والے شہری قرضہ لینے کے اہل ہوں گے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے ماہانہ 18 ہزار روپے قسط رکھی گئی ہے۔ یہ قرضہ ان شہریوں کے لیے ہے جن کے پاس 5 مرلے یا اس سے کم رقبے کا پلاٹ یا پھر اپنا نکان ہو۔ شہری اپنے پرانے گھر کی مرمت اور تزین وآرائش کے لیے بھی قرضے کے حصول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر امجد علی کا کہنا تھا کہ ’صوبائی حکومت نے قرضوں کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے ہیں جن کی ادائیگی واپس ہونے کے بعد دوبارہ سے درخواستیں وصول کی جائیں گی۔‘
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ ’قرضہ حاصل کرنے کے لیے خیبرپختونخوا کا شہری ہونا اور عمر کی حد 18 سے 55 سال تک ہونی چاہیے۔‘
بینک آف خیبر کے ذریعے قرضے دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جب کہ نئی درخواستوں کی سکروٹنی کا عمل جاری ہے۔
معاونِ خصوصی ڈاکٹر امجد کے مطابق وزیراعلیٰ کی ہدایت کے مطابق تمام اضلاع میں بلا تفریق اس پروگرام کے تحت قرضے فراہم کیے جائیں گے۔
پنجاب کا ’اپنی چھت اپنا گھر‘ پروگرام خیبرپختونخوا کے منصوبے سے کتنا مختلف ہے؟
صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں گھر کی تعمیر کے لیے شروع ہونے والے منصوبے قریباً ایک جیسے ہیں مگر پنجاب کی حکومت اس منصوبے کو شروع کرنے میں سبقت لے گئی۔
رواں سال فروری کے مہینے سے اس پروگرام کے تحت نئے گھر کی تعمیر کے لیے قرضوں کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت اب تک 25 ہزار سے زائد درخواست گزاروں کو بلاسود قرضے دیے جا چکے ہیں ۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دونوں صوبائی حکومتوں کی جانب سے 15 لاکھ روپے بلاسود قرضے دیے جائیں گے جن کی واپسی کی مدت 7 سال رکھی گئی ہے۔

دونوں منصوبوں میں ہی ماہانہ قسط کی ادائیگی کا طریقۂ کار رکھا گیا ہے مگر خیبرپختونخوا کے برعکس پنجاب میں کم یعنی ماہانہ قسط 14 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔
صوبہ پنجاب کے منصوبے میں 70 ہزار خاندانوں کے لیے گھر کی تعمیر کے لیے بلاسود قرضوں کا ہدف رکھا گیا ہے جس کے لیے 26 ارب 97 کروڑ رقم کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔
پنجاب کے صوبائی وزیر ہاؤسنگ بلال یاسین کے مطابق اب تک 1420 گھروں کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے جب کہ 21 ہزار 510 گھروں کی تعمیر جاری ہے۔
پنجاب حکومت کے مطابق قرضے ان شہریوں کو دیے گئے جن کی آمدن کم ہے اور جن کے پاس 10 مرلے پلاٹ کی ملکیت ہے تاکہ وہ ان قرضوں سے اپنا گھر تعمیر کر سکیں۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے پہلے 3 ماہ میں کوئی قسط نہیں رکھی گئی ہے۔
کیا 15 لاکھ روپے میں گھر کی تعمیر ممکن ہے؟
صوبہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں نے گھر کی تعمیر کے لیے 15 لاکھ روپے بلاسود قرضہ دینے کا منصوبہ شروع کیا ہے مگر کیا آج کے دور میں اتنے پیسوں میں گھر کی تعمیر ممکن ہے؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے ۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ٹھیکیدار رحیم شاہ گذشتہ 20 برسوں سے گھروں کی تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ 15 لاکھ روپے میں پانچ مرلے کے گھر کی تعمیر ناممکن ہے تاہم اگر ناقص مٹیریل استعمال کیا جائے تو گھر کی تعمیر ممکن ہے۔‘
رحیم شاہ کے مطابق سیمنٹ کی 1380 سے 1400 روپے کا ہے جو کہ گذشتہ سال 1200 روپے کا تھا اسی طرح اینٹ کی قیمت ان دنوں 14 روپے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعمیراتی خام مال کی قیمت تین گنا بڑھ چکی ہے جب کہ مزدور اور مستری کی اُجرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

رحیم شاہ نے بتایا کہ ’آج کل 10 لاکھ روپے صرف ایک منزل کی تعمیر پر خرچہ آ رہا ہے جب کہ پانچ مرلے کے گھر پر مکمل خرچہ 20 سے 25 لاکھ روپے تک آتا ہے۔‘
عوامی منصوبوں پر سیاست ہو رہی ہے
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عوامی منصوبوں کے آغاز کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ عوامی رائے ہے کہ ’وزیراعلی مریم نواز میگا منصوبوں پر تیزی سے عمل درامد کر رہی ہیں جب کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں وہی منصوبے اپنے صوبے میں شروع کر رہے ہیں
مبصرین کی بھی یہی رائے ہے کہ پنجاب کے بیشتر منصوبے خیبرپختونخوا حکومت نے کاپی پیسٹ کیے ہیں جن میں سولرائزیشن کا منصوبہ، رمضان پیکیج، نوجوان روزگار سکیم سمیت دیگر منصوبے شامل ہیں۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا کہنا ہے کہ ’پنجاب حکومت کی کارکردگی صرف ٹک ٹاک میں ہی آگے ہے اور عملی طور پر ان کی کارکردگی صفر ہے۔‘
’مریم نواز وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے ایڈمنسٹریشن سیکھیں۔ علی امین مالی مشکلات کے باوجود عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کو ہر قسم کی مشکلات کا سامنا ہے تاہم اس کے باوجود عوامی منصوبوں کے لیے خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔