Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سونے کی قیمتوں میں اضافہ، دبئی کی گولڈ مارکیٹ میں ’گاہک نہیں ہیں‘

ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق دبئی میں گذشتہ برس سونے کی قمیت میں 27 فیصد اضافہ ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
دبئی کی گولڈ مارکیٹ میں 22 قیراط کی جیولری شادیوں، مذہبی تہواروں اور خاندانی سرمایہ کاری کے لیے پسند کی جاتی ہے، لیکن سونے کی قمیت میں اضافے کے بعد تبدیلی نظر آ رہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سونے کی فی اونس قیمت میں 3400 ڈالر سے زیادہ اضافے کے بعد تبدیلی کے آثار نظر آ رہے ہیں کیونکہ خریدار اس کی جگہ ہلکی جیولری اور ہیروں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
ورلڈ گولڈ کونسل میں مڈل ایسٹ اینڈ پبلک پالیسی کے سربراہ اینڈریو نیلر کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکی ٹیرف دیگر عوامل نے سونے میں سرمایہ کاری کو بڑھایا ہے لیکن سونے کی جیولری پر اس کا اثر مختلف ہے۔
ان کے مطابق ’دبئی میں اس کا دوہرا اثر ہے۔ ایک طرف آپ سونے میں محفوظ سرمایہ کاری ہونے کی وجہ سے دلچسپی دیکھتے ہیں اور دوسری طرف قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے جیولری کی طلب کم ہوئی ہے۔‘
 دبئی کی گولڈ مارکیٹ میں دماس جیولری کے سیلزمین فہد خان کا کہنا ہے کہ ’سونے کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے گاہک نہیں ہیں۔‘
ایک گاہک للیتا دیو نے کہا کہ ’گولڈ خریدنا تھوڑا مشکل ہو گیا ہے، میرا خیال ہے کہ ہیرے خریدنے چاہییں۔‘
ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق دبئی میں گذشتہ برس سونے کی قمیت میں 27 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ سونے کی طلب میں 13 فیصد کمی ہوئی جو دنیا بھر میں ہونے والی کمی 11 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
گولڈ مین ساش نے کہا ہے کہ 2025 میں سونے کی قیمت 3700 سے 4500 ڈالر فی اونس تک پہنچ سکتی ہے جس سے جیولری کی طلب میں مزید کمی آ سکتی ہے۔

یو اے ای دنیا میں ہیرے درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے (فوٹو: نیتھین جیولری)

لیبارٹری میں تیار کیے گئے ہیرے

معیشت کی ایک علامت لیبارٹری میں تیار کیے گئے ہیروں کا عروج ہے۔ جیم اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کے مطابق سنہ 2024 میں انڈیا نے یو اے ای میں ایک کروڑ 71 لاکھ ڈالر مالیت کے ہیرے برآمد کیے جو دو برس پہلے برآمد کیے گئے ایک کروڑ نو لاکھ ڈالر کے ہیروں سے 57 فیصد زیادہ تھا۔
ٹریڈ ڈیٹا کے مطابق یو اے ای دنیا میں ہیرے درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور اس کے اہم تجارتی شراکت داروں میں انڈیا، جنوبی افریقہ اور بیلجیئم شامل ہیں۔
گرینڈ ویو ریسرچ کے مطابق 2023 میں اگرچہ یو اے ای کا دنیا بھر میں ہیروں کی طلب کا ایک اعشاریہ پانچ فیصد حصہ تھا، لیکن اندازہ لگایا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک اس میں پانچ اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہو گا اور یہ دو ارب ڈالر کی مارکیٹ بن جائے گی۔

 

شیئر: