ایک حکومتی اہلکار کا کہنا ہے عراق میں پانی کے ذخائر ڈرائی رینی سیزن کے بعد 80 برسوں میں اپنی کم ترین سطح پر ہیں کیونکہ دریائے دجلہ اور فرات سے پانی کا حصہ کم ہوتا جا رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں، خشک سالی، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور بارش میں کمی کے باعث 46 ملین آبادی والے ملک میں پانی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
مزید پڑھیں
-
آبی وسائل اور ماحولیاتی چیلنجز پر ریاض میں بین الاقوامی کانفرنسNode ID: 727826
عرب نیوز کے مطابق عراقی حکام ہمسایہ ملکوں ایران اور ترکی میں اوپر بنائے گئے ڈیموں کو بھی دجلہ و فرات کے بہاو میں ڈرامائی کمی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، یہ دونوں دریا صدیوں سے عراق کو سیراب کرتے آئے ہیں۔
عراق کی وزارت آبی وسائل کے ترجمان خالد شمال نے اے ایف پی کو بتایا’ موسم گرما کا آغاز کم از کم 18 بلین کیوبک میٹر پانی سے ہونا چاہیے لیکن ہمارے پاس صرف 10 بلین مکعب میٹر پانی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’گذشتہ برس ہمارے سٹریٹجک ذخائر بہتر تھے، جو اب ہمارے پاس ہیں یہ اس سے دگنا تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ہم نے 80 برسوں میں اتنا کم ذخیرہ نہیں دیکھا۔ یہ زیادہ تر دو دریاؤں کے کم بہاو کی وجہ ہے۔‘
خالد شمال نے دعوی کیا ’عراق کو اس وقت دریائے دجلہ و فرات سے اپنے حصے سے 40 فیصد سے کم پانی ملتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس موسم سرما میں کم بارش اور برف پگھلنے سے پانی کی سطح کم رہی جس سے عراق میں صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔‘
اقوام متحدہ عراق کو ان پانچ ممالک میں سے ایک قرار دیتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے بعض اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
پانی کی کمی نے عراق میں بہت سے کسانوں کو اپنی اراضی چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حکام نے پینے کے پانی کی مناسب فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے زرعی سرگرمیوں میں نمایاں کمی کردی ہے۔
پانی ،عراق اور ترکی کے درمیان تناو کا سبب رہا ہے۔ 2024 میں عراق اور ترکی نے دس سالہ ’فریم ورک معاہدے‘ پر دستخط کیے جو آبی وسائل کے بہتر انتظام کو یقینی بنانے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ہے۔