Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی نوجوان کرپٹو کرنسی کے ’انقلاب‘ سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟

حکومت نے دو ہزار میگاواٹ بجلی کرپٹو مائننگ اور مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کے لیے مختص کی ہے (فوٹو: اے یف پی)
لاہور گلبرگ کے علاقے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں 24 سالہ عثمان اپنے لیپ ٹاپ پر کرپٹو کرنسی کے گرافکس دیکھ رہے ہیں۔ وہ دو سال سے ڈیجیٹل کرنسیوں میں سرمایہ کاری کرتے آئے ہیں اور اب ایک چھوٹا سا کرپٹو مائننگ سیٹ اپ بھی چلا رہے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے شروعات 50 ہزار روپے سے کی تھی، اب میری ماہانہ آمدنی لاکھوں میں ہے، زیادہ تفصیل تو نہیں بتا سکتا لیکن اب مجھے لگ رہا ہے کہ میرے پاس جو ہنر ہے اسے دکھانے کا وقت آگیا ہے۔‘
عثمان جیسے ہزاروں پاکستانی نوجوان کرپٹو کرنسی کے عروج سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور اب حکومت پاکستان نے اس شعبے کو باقاعدہ تسلیم کرتے ہوئے ایک نئی وزارت قائم کی ہے۔
فروری 2025 میں نیشنل کرپٹو کونسل کے قیام کے بعد، جس کی قیادت بلال بن ثاقب کر رہے تھے، اب انہیں وزیر کے برابر کا عہدہ دے کر کرپٹو کی نئی وزارت کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، دو ہزار میگاواٹ بجلی کرپٹو مائننگ اور مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت کی دوڑ میں شامل کر رہا ہے۔
کرپٹو کرنسی اور پاکستان
پاکستان کی آبادی 25 کروڑ سے زائد ہے اور دنیا کے سب سے بڑے ڈیجیٹل صارفین کے ممالک میں سے ایک ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق ملک میں دو کروڑ سے زائد افراد کرپٹو کرنسی سے کسی نہ کسی طور پر منسلک ہیں چاہے وہ سرمایہ کاری ہو، تجارت ہو، یا مائننگ۔
تاہم کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ شعبہ غیر رسمی مارکیٹوں میں پروان چڑھ رہا تھا۔ 2025 میں حکومت نے اس صورتحال کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ فروری میں نیشنل کرپٹو کونسل کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد کرپٹو اور بلاک چین ٹیکنالوجی کے لیے ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنا تھا۔
بلال بن ثاقب، ایک معروف بلاک چین ماہر، کو اس کونسل کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم پاکستان کا ایک نیا چہرہ دنیا کے سامنے لائے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ پاکستان کو اب ماضی کے عدسے سے نہ دیکھا جائے۔ حکومت پاکستان نے نیشنل بٹ کوائن والٹ بنا دیا ہے جو خود مختار ریزرو کے طور پر کام کرے گا کہ یہ پائیدار اور طویل مدتی بندوبست ہے۔ جس میں دنیا بھر کی کمپنیوں اور مائنرز کو دعوت ہے۔‘
خیال رہے کہ حکومت نے دو ہزار میگاواٹ بجلی کرپٹو مائننگ اور مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کے لیے مختص کر رکھی ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی اضافی بجلی، جو گرمیوں میں 45 ہزار میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے مقابلے میں 24 ہزار اور سردیوں میں 7-8 ہزار میگاواٹ طلب رکھتی ہے، کو استعمال کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ یہ ڈیجیٹل معیشت سے زرمبادلہ کمانے کا نیا راستہ ہے۔

بلال بن ثاقب ایک معروف بلاک چین ماہر ہیں جن کو اس کونسل کا سربراہ مقرر کیا گیا (فوٹو: سکرین گریب)

دو ہزار میگاواٹ: کرپٹو مائننگ کا نیا دور

کرپٹو مائننگ ایک پیچیدہ ڈیجیٹل عمل ہے، جس میں طاقتور کمپیوٹرز بلاک چین ٹرانزیکشنز کی تصدیق کرتے ہیں اور نئی کرپٹو کرنسی، جیسے بٹ کوائن وغیرہ بناتے ہیں۔ اس کے لیے بڑی مقدار میں بجلی درکار ہوتی ہے، جو پاکستان جیسے ملک کے لیے چیلنج اور موقع دونوں ہے۔ دو ہزار میگاواٹ کا فیصلہ اس اضافی بجلی کو معاشی فائدے میں بدلنے کی کوشش ہے۔
لیکن کیا حکومت خود مائننگ کرے گی؟ بلال بن ثاقب نے واضح کیا کہ حکومت براہ راست مائننگ نہیں کرے گی بلکہ نجی شعبے اور عالمی کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے سستی بجلی اور ریگولیٹری مراعات دے گی۔
فیصل آباد کے ایک کرپٹو سرمایہ کار محمد احمد کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ ہم جیسے چھوٹے مائنرز کے لیے گیم چینجر ہے۔ اگر بجلی سستی ہوئی تو ہم اپنے سیٹ اپ بڑھا سکتے ہیں۔ ابھی تک تو بجلی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس لیے بھی پاکستان کے اندر مائننگ اتنی زیادہ پنپ نہیں سکی ہے۔‘
 تاہم ماہر اقتصادیات عمار حبیب خان نے خبردار کیا کہ ’سستی بجلی کی فراہمی 24 گھنٹے یقینی بنانا چیلنج ہوگا، کیونکہ شام کے اوقات میں طلب بڑھ جاتی ہے۔ اور پاکستان جیسا ملک جو ابھی تک مکمل طور پر توانائی بحران سے باہر نہیں آیا اس کے لیے تو اور مشکل ہے۔ لیکن دیکھتے ہیں کہ حکومت کیا سوچ رہی ہے۔‘

نوجوانوں کے لیے مواقع

پاکستان کی 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے اور کرپٹو کرنسی ان کے لیے روزگار اور سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھول رہی ہے۔ نیشنل کرپٹو کونسل کے مطابق کرپٹو انڈسٹری آئی ٹی، انجینیئرنگ، اور ڈیٹا سائنس میں ہزاروں نوکریاں پیدا کر سکتی ہے۔ بلال بن ثاقب نے لاس ویگاس میں بٹ کوائن کانفرنس 2025 میں کہا کہ ’پاکستان اب صرف صارف مارکیٹ نہیں، بلکہ بلاک چین انقلاب کا مرکزی سٹیشن ہے۔‘
کرپٹو ماہر مذکر اعجاز کے مطابق ’نوجوانوں کے لیے سب سے پہلا آپشن مائننگ آپریشنز ہیں۔ کرپٹو مائننگ کے لیے کمپیوٹر سیٹ اپ بنانے اور چلانے والوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ لاہور اور کراچی میں چھوٹے مائننگ فارمز پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تو بلاک چین ڈیویلپمنٹ یعنی بلاک چین پر مبنی ایپلی کیشنز بنانے کے لیے پروگرامرز اور ڈیویلپرز کی ضرورت ہے۔ یہ شعبہ ہر سال 30 فیصد بڑھ رہا ہے۔‘

حکومت کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں چار کروڑ سے زائد افراد کرپٹو کرنسی کے صارفین ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ تیسرے نمبر پر کرپٹو ٹریڈ ہے۔ ’کرپٹو ایکسچینجز پر تجارت سے نوجوان ماہانہ لاکھوں روپے کما رہے ہیں جیسے کہ عثمان اور یہ سہولت ہر کسی کو حاصل ہو گی چوتھے نمبر پر ڈیٹا سینٹرز میں مواقع ہیں۔  دو ہزار میگاواٹ کے فیصلے سے مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز بن رہے ہیں، جن میں تکنیکی ماہرین کی ضرورت ہوگی۔‘

پاکستان میں کرپٹو سے منسلک افراد

حکومت کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں چار کروڑ سے زائد افراد کرپٹو کرنسی کے صارفین ہیں۔ان میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں جو کرپٹو ایکسچینجز جیسے بائننس اور کوائن بیس پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی غیر رسمی کرپٹو مارکیٹ کا حجم 15 سے 20 ارب ڈالر میں ہے۔ تاہم اس حوالے سے سرکاری اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔
سرمایہ کاری کے لحاظ سے  ایک اندازے کے مطابق 50 لاکھ سے زائد پاکستانی کرپٹو میں سرمایہ کاری کر چکے ہیں، جن کی اوسط سرمایہ کاری 10 ہزار سے ایک لاکھ روپے ہے۔
کراچی کی ایک کرپٹو ٹریڈر زینب علی کہتی ہیں کہ ’میں نے 20 ہزار روپے سے شروع کیا اور اب میرا پورٹ فولیو پانچ لاکھ کا ہے۔ لیکن یہ خطرناک بھی ہے۔ مجھے اس میں بہت وقت استعمال کرنا پڑا اب جا کر کچھ اندازے ٹھیک ہوئے ہیں لیکن یہ کام شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہے۔‘
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ کرپٹو کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے نقصان کا خطرہ رہتا ہے جیسے کہ 2021 میں بٹ کوائن کی قیمت 60 ہزار سے 30 ہزار ڈالر تک گر گئی تھی۔

نوجوانوں کو کیا ہنر سیکھنا چاہیے؟

کرپٹو انڈسٹری میں کامیابی کے لیے تکنیکی اور مالیاتی ہنر ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستانی نوجوانوں کو بلاک چین ٹیکنالوجی کو سیکھنا ہو گا۔ مذکر اعجاز کا کہنا ہے کہ ’بلاک چین کے بنیادی اصول، سمارٹ کنٹریکٹس، اور ڈی سینٹرلائزڈ ایپلی کیشنز بنانا سیکھنا ہو گا اور اب یہ سب آسان ہے اور انٹرنیٹ اس سے بھرا پڑا ہے آن لائن پلیٹ فارمز جیسے کورسیرا، یوڈیمی اور اب تو مقامی تعلیمی ادارے بھی یہ کورسز سکھا رہے ہیں۔

کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ورچوئل ایلسسٹس بل 2025 پیش کیا جائے گا (فوٹو: انویسٹو پیڈیا)

ان کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ کرپٹو مائننگ سیکھنا چاہتے ہیں وہ اے ایس آئی سی اور جی پی یو، نائس ھیش اور سی جی مائنر لگائیں اور انرجی مینجمنٹ کے ساتھ مائننگ سافٹ وئیر سیکھیں اسی طرح جو لوگ ٹریڈنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ مالیاتی تجزیہ سیکھیں کرپٹو مارکیٹ کے رجحانات، تکنیکی تجزیہ اور رسک مینیجمنٹ جیسی تعلیم حاصل کریں۔‘
کرپٹو ٹریڈر زینب کہتی ہیں کہ ’بغیر تجزیے کے کرپٹو میں سرمایہ کاری جوا ہے۔ میں نے چارٹس پڑھنا سیکھا، جس سے میرا نقصان کم ہوا۔ اور بھی مجھے لگتا ہے کہ مجھے اور بہت کچھ پڑھنا ہے۔ اور اس کا علم حاصل کرنا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق پاکستانی نوجوان سائبر سکیورٹی فیلڈ میں بھی قسمت آزما سکتے ہیں کیونکہ کرپٹو والیٹس کی حفاظت، ہیکنگ سے بچاؤ، اور ڈیٹا انکرپشن وغیرہ اس کا حصہ ہے۔ اسی طرح ڈیٹا سینٹر مینجمنٹ میں سرور مینجمنٹ، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور انرجی ایفیشنسی کی تعلیم اور ہنر آپ کو کرپٹو کرنسی کے مستقبل سے جوڑ سکتا ہے۔ اور پاکستان میں اب ڈیٹا سنٹرز میں کام کرنے کی ملازمتیں بھی بڑھیں گی۔
کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ورچوئل ایلسسٹس بل 2025 پیش کیا جائے گا، لیکن پارلیمنٹ کی منظوری میں وقت لگ سکتا ہے۔

نوجوانوں کے لیے عملی رہنمائی

کرپٹو ماہر عمر فاروق کہتے ہیں کہ ’چھوٹی سرمایہ کاری 5-10 ہزار روپے سے کرپٹو ٹریڈنگ شروع کریں لیکن صرف وہی جو آپ نقصان برداشت کر سکیں۔ بلاک چین، سائبر سکیورٹی، اور مائننگ کے کورسز میں 3-6 ماہ لگائیں۔ کمیونٹی بنائیں اور مقامی کرپٹو گروپس سے جڑیں اور تازہ معلومات حاصل کرتے رہیں۔ خطرات سمجھیں اور کرپٹو کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور سکیموں سے بچیں۔‘

 

شیئر: