غزہ کے لیے امریکہ کا نیا منصوبہ، 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز
وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو کہا تھا کہ اسرائیل نے امریکی جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے امریکی منصوبے میں 60 دن کی جنگ بندی اور پہلے ہفتے میں 28 اسرائیلی یرغمالیوں (زندہ اور مردہ دونوں) کی رہائی، اور 125 فلسطینی قیدیوں (جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی) کے ساتھ ساتھ 180 مردہ فلسطینیوں کی باقیات کی واپسی کی تجویز دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اس کی ضمانت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ثالثی کرنے والے ممالک مصر اور قطر دے رہے ہیں، اور جیسے ہی حماس جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرے گی، غزہ کو امداد فراہم کی جائے گی۔
منصوبے کے مطابق، حماس اُس وقت آخری 30 یرغمالیوں کو رہا کرے گی جب مستقل جنگ بندی نافذ ہو جائے گی۔
وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو کہا تھا کہ اسرائیل نے امریکی جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے۔
فلسطینی عسکری گروہ حماس نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ اس منصوبے کا جائزہ لے رہا ہے اور جمعہ یا ہفتہ کو اس پر جواب دے گا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان گہرے اختلافات نے اس سے قبل مارچ میں ناکام ہونے والی جنگ بندی کی کوششوں کو روک رکھا ہے۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ حماس مکمل طور پر ہتھیار ڈالے، ایک عسکری اور حکومتی قوت کے طور پر تحلیل ہو، اور غزہ میں موجود تمام 58 یرغمالیوں کو واپس کیا جائے۔ اس کے بعد ہی وہ جنگ ختم کرنے پر رضامند ہوگا۔
حماس نے ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنی افواج غزہ سے نکالنی ہوں گی اور جنگ ختم کرنے کے عزم کا اظہار کرنا ہوگا۔
اسرائیل نے یہ فوجی کارروائی 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملے کے بعد شروع کی تھی، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور 251 اسرائیلیوں کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا۔
اس کے بعد شروع ہونے والی اسرائیلی فوجی مہم کے نتیجے میں 54,000 سے زائد فلسطینی مارے جاچکے ہیں۔