Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو بھی کرنا ہے یکسوئی سے کریں: عامر خاکوانی کا کالم

’اگر تحریک انصاف حالات کو سیاست سمجھ کر قبول اور ہینڈل کرے گی تو ان کی تلخی میں کمی آئے گی۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی
تحریک انصاف اور ان کے حامیوں کا دلچسپ معاملہ ہے۔ ان کے حق میں کوئی پوسٹ یا تحریر لکھی جائے تو وہ اسے فار گرانٹڈ لیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ چونکہ وہ حق پر ہیں، سچائی کے راستے پر گامزن ہیں، اس لیے ان کی حمایت کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ بعض تو حمایتی پوسٹ کرنے والے کے بارے میں صاف کہہ دیتے ہیں کہ اس نے ویوز اور ڈالروں کی لالچ میں ایسا کیا ہوگا، ورنہ پہلے تو یہ مخالف تھا۔
چلیں ٹھیک ہو گیا، حامیوں کے ساتھ تو آپ نے سیٹل کر لیا۔ اصل مسئلہ تنقید کرنے والوں کے ساتھ بنتا ہے۔ ایسے ہر ناقد پر یہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ الزامات، تنقید، طنز، طعنے، دشنام اور گاہے ننگی گالی دینے سے بھی باز نہیں رہتے۔ ایک دلچسپ بات یہ کہی جاتی ہے کہ آپ نے تو اپنی ریچ بڑھانے کے لیے ایسا کیا ہے۔
بھئی حد ہی ہے، تنقید کرنے سے کیسے ریچ بڑھ جائے گی؟ ناقدین کو تو آپ لوگ ٹرول کرتے ہوں، تمسخر اڑاتے، اس کے خلاف پوسٹیں لگاتے اور ٹرینڈز چلاتے ہو۔ اس کی ریچ کہاں سے بڑھے گی؟ ویسے بھی اپنے بارے میں یہ گمان کرنا کہ جیسے سوشل میڈیا یہی کنٹرول کرتے ہیں اور جو حرف ان کے حوالے سے لکھا جائے اسے ہی پڑھا جائے گا، یہ تصور کرنا خوش فہمی کہلاتا ہے۔
بات یہ ہے تحریک انصاف ملک کی بہت اہم جماعت ہے، اس کا ووٹ بینک اور سپورٹ بڑی ہے اور متنوع بھی۔ اس لیے اسے ڈسکس کیا جاتا ہے۔ اچھے پہلوؤں کی تحسین اور غلطیوں یا خامیوں پر تنقید کی جاتی ہے۔ یہ قابل فہم بات ہے۔
آپ کو تنقید پسند نہیں تو اس کا شائستگی سے جواب دیں، اپنا موقف یا تصویر کا دوسرا رخ سامنے لے آئیں یا پھر اس تنقید کو برداشت کرتے ہوئے نظرانداز کر دیں۔ یہی ہمارا ان کے لیے پہلا مشورہ ہے کہ اپنے رویوں اور ردعمل میں اعتدال لے آئیں۔

آپ سیاست میں ہیں، ویسا برتاؤ ملے گا

تحریک انصاف کی کارکنوں اور ان کے حامیوں کے لیے دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ یہ سمجھ لیں کہ سیاسی جماعت ہیں، سیاست کر رہے ہیں، پاور پالیٹیکس کا حصہ ہیں۔ یہ حق و باطل کی جنگ نہیں۔ آپ لوگ اپنی تقویت کے لیے اولین اسلامی تاریخ سے استعارے ضرور ڈھونڈیں مگر دوسروں کو ان کا پابند نہ بنائیں۔ آپ اخلاقی برتری کے اس سنگھاسن پر براجمان نہیں کہ آپ کی حمایت کرنا ہر ایک پر فرض ہوجائے۔
یہ البتہ ٹھیک ہے کہ آپ اپوزیشن کی سیاست کر رہے ہیں، مشکل، کٹھن سیاست۔ پاکستان میں اپوزیشن معتوب ہوتی ہے، اس بار آپ ہیں۔ 
سختیاں سہنا پڑ رہی ہیں۔ قانون سے ماورا کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اپوزیشن کے خلاف غیرجمہوری، غیر قانونی، غیراخلاقی حربے استعمال نہیں کیے جانے چاہییں۔ یہ اصولی بات ہے۔ ایک عالمگیر سچ۔
سچ تو مگر یہ بھی ہے کہ کل کو تحریک انصاف حکومت میں تھی تو تب کی اپوزیشن معتوب تھی، سختیوں کا شکار تھی۔ البتہ شدت آج والی نہیں تھی۔

’سیاست میں اتحادی بنانے پڑتے ہیں، مخالفوں کو کمزور اور اکیلا کرنا پڑتا ہے‘۔ فائل فوٹو: پی ٹی آئی سوشل میڈیا

اگر تحریک انصاف ان مسائل اور حالات کو سیاست سمجھ کر قبول اور ہینڈل کرے گی تو ان کی تلخی اور کڑواہٹ میں کمی آئے گی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کی ڈیلنگ بھی بہتر ہوجائے گی۔

اپنے حامیوں کی تعداد بڑھائیں

مذہبی حلقوں میں ایک فقرہ کہا جاتا ہے کہ ایسی بات بولو کہ توڑ نہ ہو، ایسی بات کہو کہ جوڑ ہو جائے یعنی تعلق ٹوٹنے کے بجائے مضبوط ہوں۔
یہ بات تحریک انصاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کئی برسوں سے یہ سولو پالیٹکس کر رہی ہے۔ حکومت میں آئے تو مجبوراً مخلوط حکومت بنانا پڑی مگر اپنے اتحادیوں کو پارٹنر بنانے کی صلاحیت سے تحریک انصاف کے قائد محروم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے کسی دوسری سیاسی جماعت کو ساتھ ملانے یا کوئی اتحاد بنانے کی ذرا برابر ضرورت محسوس نہ کی۔ وہ شاید سمجھتے تھے کہ آسانی سے میدان مار لیں گے اور اقتدار میں تن تنہا آجائیں گے۔ ایسا مگرنہیں ہوا۔
جے ڈی اے سندھ میں اینٹی پی پی پی سیاست کرتی ہے، یہ تحریک انصاف کی فطری اتحادی ہے۔ کیا عمران خان نے اپوزیشن کی سیاست میں لاہور یا پنجاب کے کسی جلسے، کسی ایکٹوٹی میں جے ڈی اے کے لیڈرز کو مدعو کیا؟
اسی طرح کراچی کے بلدیاتی انتخاب میں انہیں جماعت اسلامی سے اتحاد بنانا پڑا، اگرچہ میئر پھر بھی نہ بن سکا۔ جماعت اسلامی کے ساتھ کراچی میں اتحاد چلنا چاہیے تھا، الیکشن میں اسے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی سطح پر ہی رکھا جاتا۔ بلوچستان میں الیکشن کے بعد محمود اچکزئی، اختر مینگل وغیرہ کے ساتھ انٹرایکشن بڑھا۔ بلوچ پشتون قوم پرستوں کو پہلے ہی ساتھ ملا لینا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں کیا گیا، یہ غلطیاں ہی شمار ہوتی ہیں۔
سیاست میں اتحادی بنانے پڑتے ہیں، مخالفوں کو کمزور اور اکیلا کرنا پڑتا ہے، خود تنہا نہیں ہو جاتے۔ ممکن ہے یہ بات اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کو اب سمجھ آ رہی ہوگی۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی نے گزشتہ ہفتے احتجاج کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

جو جتنی حمایت کرتا ہے، اسے قبول کریں

تحریک انصاف کو ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ غیر مشروط حمایت کم ہی میسر آتی ہے، عام طور سے کچھ چیزیں اختلافی ہوتی ہیں اور بعض پر اتفاق رائے۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ مشترک نکات پر بات کریں۔ جو جتنی حمایت کرتا ہے، اسے قبول کریں۔ ٹو مچ کی توقع نہ کریں۔ یہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے لکھاریوں اور تجزیہ کاروں کے بارے میں بھی ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر ایک آپ کا مستقل یا باقاعدہ ساتھی نہیں بن سکتا۔ صحافیوں، تجزیہ کاروں، لکھاریوں کی اپنی سوچ، فکر اور رائے ہوتی ہے۔ ممکن ہے وہ بعض امور پر آپ کے ناقد ہوں، مگر چند ایک اہم چیزوں میں وہ ہم خیال ہوں۔ بعض لوگ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی سیاست کے مخالف ہوں گے، وہ ان کی مخالفت کے معاملے میں آپ کو سپورٹ کریں گے، اس سے زیادہ نہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے، آپ اپنی ہارڈ کور کو مضبوط بنائیں اور باقی جہاں سے جتنی سپورٹ ملتی ہے اسے لیں۔ انہیں طنز، طعنوں کا نشانہ نہ بنائیں۔
اگر آپ دوسروں کو سپیس نہیں دیں گے تو وہ دور ہوجائیں گے، پھر انہیں مجبوراً آپ کے مخالف کیمپ کے قریب ہونا پڑتا ہے۔

سیاسی جماعت میں ہر طرح کے لوگ ضروری ہیں

کسی بھی پارٹی میں کچھ لوگ زیادہ قربانی دینے والے، سخت جان اور عزیمت والے ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی مشکل راہ اپناتے اور قربانیاں دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی قدر کرنی چاہیے۔ ہر پارٹی میں کچھ لوگ مگر ایسے بھی ہوتے ہیں جو نظریاتی، وفادار اور اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ بس ان میں عزیمت کا عنصر کم ہوتا ہے اور وہ رخصت کے اصول پر چلتے ہیں یعنی جہاں جہاں رعایت مل سکتی ہے لے لی جائے۔ ایسے لوگوں کو رد نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ بہرحال انہوں نے لالچ، ترغیب اور زور و جبر کے باوجود پارٹی نہیں چھوڑی۔ کسی نہ کسی سطح پر پارٹی سے جڑے رہے، وفاداری نبھائی۔ البتہ وہ پولیس کے چھتر نہیں کھانا چاہتے، جیلوں میں سڑنا نہیں چاہتے اور گزارا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے نوٹ کیا ہے کہ تحریک انصاف میں چونکہ ہارڈ لائنرز غالب آ چکے ہیں، خاص کر اوورسیز ولاگرز تو وہ انتہائی عزیمت والے لوگوں کے سوا کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یہ غلط اپروچ ہے۔ پارٹیاں یوں نہیں بنتیں، یوں نہیں چلائی جاتیں۔ ٹوئٹر پر فیک آئی ڈیز والے اور دریدہ دہن ایکٹوسٹس اور بیرون ملک بیٹھے ولاگرز کے رحم وکرم پر اپنی پارٹی کے نرم خو، معتدل رہنمائوں کو چھوڑ دینا زیادتی ہوگی۔

جو بھی کرنا ہے یکسوئی سے کریں

تحریک انصاف کا ایک اور مسئلہ اس میں پائے جانے والے تضادات ہیں۔ لگتا ہے جیسے پارٹی کی چین آف کمانڈ ٹوٹ چکی ہے۔ چونکہ قائد جیل میں ہیں، قائم مقام بااختیار قائد کوئی نہیں۔ چیئرمین ایک رسمی عہدہ ہی ہے، اس لیے جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کیے جا رہا ہے۔ ایک ایشو پر کئی متضاد بیانات سننے کو ملتے ہیں۔ ادھر جیل میں جب عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان ملاقات کرتی ہیں تو وہ باہر آ کر کچھ نہ کچھ ایسا بیان کرتی ہیں جس سے بہت کچھ تلپٹ ہو جاتا ہے۔ اگر کہیں مذاکرات کا کوئی عمل چل بھی رہا ہو تو وہ علیمہ خان کی میڈیا ٹاک کے بعد تہس نہس ہو جاتا ہے۔
اس سب کچھ سے منفی اور بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ تحریک انصاف کو ایک بات طے کر لینی چاہیے کہ انہوں نے مذاکرات کی راہ اپنانی ہے یا صرف احتجاجی سیاست کے ذریعے، عوامی قوت کے بل پر اپنی باتیں منوانی ہیں۔ یہ دونوں کام بیک وقت نہیں ہو سکتے۔ ایک دن بیان آتا ہے کہ مذاکرات کے لیے ہم تیار ہیں، دوسرے روز ایسا شعلے برساتا علیمہ خان کی وساطت سے بیان آتا ہے کہ امن کی شمع بجھ جاتی ہے، صلح کے سفید جھنڈے ہی کو آگ لگ جاتی ہے۔ حضور والا ایسا نہیں ہوتا۔ آپ اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔

رواں سال تحریک انصاف کا کوئی بڑا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

احتجاجی تحریک چلانے کا بھی ایک اسلوب ہے

ایک منٹ کے لیے فرض کر لیں کہ جس طرح عمران خان کہہ رہے ہیں ویسے ہی ہوگا اور تحریک انصاف ملک بھر میں بھرپور احتجاجی تحریک چلائے گی۔ مگر کیسے؟ کسی نے سوچا ہے اس بارے میں؟
جون کا مہینہ شروع ہو چکا ہے، آگ برساتا مہینہ جب پنجاب اور کے پی میں ٹمپریچر 45 تک چلا جاتا ہے، سڑک پر پانچ منٹ پیدل نہیں چلا جا سکتا۔ اس موسم میں کون احتجاجی تحریک چلاتا ہے۔ پھر اگر تحریک چلانی ہے تو پارٹی کے بغیر کہاں چل سکے گی؟ کارکنوں کو کون باہر نکالے گا، نچلی سطح پر یہ کام کون کرے گا۔ بغیر کسی پارٹی تنظیم کے تو تحریک نہین چل سکتی۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ علیمہ خان کے بقول عمران خان نے بیرسٹر علی ظفر کو احتجاجی تحریک چلانے کا پلان بنانے کا کہا ہے۔
سیریسلی؟ علی ظفر ایک بڑے وکیل کے صاحبزادے اور خود بھی اچھے وکیل ہیں۔ انہوں نے مگر عملی سیاست کی ہی نہیں۔ کبھی یونین کونسل کی سطح کا الیکشن بھی نہیں لڑا۔ وہ کسی احتجاجی تحریک میں شامل تو دور کی بات ہے، شاید ٹی وی پر بھی یہ سب نہ دیکھا ہو۔ وہ تحریک انصاف کے کارکنوں سے اور کارکن ان سے بے خبر ہیں۔ اگر علی ظفر سے احتجاجی تحریک کا پلان بنوانا ہے تو پھر خان صاحب کو چاہیے کہ یہ زحمت نہ ہی کریں۔ اپنے دو چار مزید رہنما قید کروا لیں گے، چند سو کارکنوں پر مزید پرچے ہوجائیں گے اور بس۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
تحریک انصاف کو یکسو ہونا پڑے گا کہ سیاسی عمل کے ذریعے، مذاکرات کے ذریعے معاملات سلجھانے ہیں یا پھر لمبی، طویل جدوجہد کرنی ہے اور پارٹی کو مضبوط بنا کر لمبی جنگ لڑ کے، احتجاجی تحریک چلا کر اپنے مطالبات منوانے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک فیصلہ کر لیں، دونوں اکھٹے مزید نہیں چل سکتے۔

شیئر: