شدت پسند عسکری گروہ ماضی میں خودکش حملوں یا بارودی مواد کے ذریعے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے تھے مگر حالیہ کچھ واقعات میں خیبرپختونخوا کے سرحدی اور قبائلی علاقوں میں ڈرون کے ذریعے حملوں کی کوششیں سامنے آئی ہیں۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق شدت پسند تنظیمیں اب کارروائیوں کے لیے جدید کواڈ کاپٹر ڈرون استعمال کر رہی ہیں۔
کواڈ کاپٹر کیا ہے؟
دفاعی ماہرین کے مطابق کواڈ کاپٹر ایک چھوٹا طیارہ ہوتا ہے جس کے چار پر ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ فضائی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
خیبرپختونخوا: سات شدت پسند ہلاک، چار فوجی اہلکار جان سے گئےNode ID: 890345
تاہم عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے کواڈ کاپٹر سائز میں بڑے اور جدید کیمروں سے لیس ہوتے ہیں جو 20 ہزار فٹ کی بلندی سے بھی زمین کی واضح تصاویر لے سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض ڈرونز میں 50 کلوگرام تک بارودی مواد لے جانے کی صلاحیت ہوتی ہے اور یہ چار انجنز کی مدد سے تین سے چھ گھنٹے تک مسلسل پرواز کر سکتے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں حالیہ ڈرون حملے
خیبرپختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں حالیہ دنوں میں مبینہ ڈرون حملے رپورٹ ہوئے ہیں۔ 19 مئی کو شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں ایک واقعے میں چار بچے مارے گئے جبکہ جنوبی وزیرستان میں ایک اور حملے میں 23 افراد زخمی ہوئے۔
عینی شاہدین کے مطابق ڈرون طیارے نے میزائل داغے، جس سے جانی نقصان ہوا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ڈرون کی پروازوں سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔
صوبائی حکومت کا موقف
صوبائی حکومت کے ترجمان اور معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر بیرسٹر سیف نے میڈیا کو بتایا کہ ’فتنہ الخوارج کے پاس کواڈ کاپٹر موجود ہونے کے شواہد موجود ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق شدت پسند ان ڈرونز میں بارودی مواد نصب کرکے عام شہریوں کے گھروں پر گرا دیتے ہیں تاکہ عوام میں اشتعال پیدا ہو اور بدامنی کو ہوا ملے۔

ڈاکٹر سیف کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تاہم سکیورٹی فورسز ان کے خلاف مؤثر کارروائی کر رہی ہیں اور اہم کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔‘
’دہشت گردوں نے ڈرون کی تربیت افغانستان میں حاصل کی‘
پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کچھ کالعدم تنظیموں کے شدت پسندوں کے پاس جدید ڈرون موجود ہیں، جنہیں کارروائیوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ ڈرون افغانستان سے لائے گئے ہیں اور تربیت بھی سرحد پار ہی حاصل کی گئی ہے۔
پولیس افسر نے مزید کہا کہ ’دہشت گرد ان ڈرونز کو سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی نگرانی اور بعض اوقات حملوں کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر انہوں نے خود ہی اپنی کارروائیوں کی ویڈیوز بھی اپلوڈ کی ہیں۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ’سکیورٹی فورسز کی جانب سے کامیاب ٹارگٹڈ آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے تباہ کیے جا چکے ہیں، تاہم اب وہ دور دراز پہاڑوں سے ڈرون کے ذریعے حملے کر رہے ہیں۔‘
کیا پولیس کے پاس ڈرون گرانے کی صلاحیت ہے؟
خیبرپختونخوا پولیس کے سابق آئی جی اختر علی شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ عام تجارتی ڈرون، جو اکثر نگرانی اور ویڈیو بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اگر کسی حساس علاقے میں پائے جائیں تو پولیس کے پاس انہیں گرانے کی صلاحیت موجود ہے۔

تاہم ان کے مطابق جو جدید غیر ملکی ساختہ عسکری ڈرون ہوتے ہیں، وہ اونچی پرواز کرتے ہیں اور انہیں نشانہ بنانا پولیس کے بس میں نہیں۔ ایسی صورت میں سکیورٹی فورسز کے پاس موجود ہتھیار اور خود ڈرون ان کا تعاقب کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
سی ٹی ڈی کے اقدامات
انسداد دہشت گردی کے ادارے (سی ٹی ڈی) کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کے پاس نگرانی کے لیے ڈرون کیمرے موجود ہیں جن کی مدد سے متعدد کامیاب کارروائیاں کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دو سال قبل پشاور کے مضافات میں ڈرون کی مدد سے ایک انتہائی مطلوب دہشت گرد کو ہلاک کیا گیا تھا۔
اہلکار کے مطابق ’یہ نگرانی کرنے والے ڈرون کیمرے صرف صوبے کے حساس اضلاع کو فراہم کیے گئے ہیں تاکہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کے دوران انڈین فوج نے بھی اسرائیلی ساختہ ڈرونز کی مدد سے پاکستان کے کچھ علاقوں کو نشانہ بنایا تھا۔