Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کارڈ سے ادائیگی کریں اور کم ٹیکس دیں‘، دہرے ٹیکس نظام میں وسعت کی تیاری

محمد اورنگزیب کے مطابق ’9.3 کھرب روپے کی نقد معیشت کو ڈیجیٹائز کر کے ٹیکس چوری کو کم کیا جا سکتا ہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)
یہ بات زیادہ پُرانی نہیں جب پاکستان میں کسی بڑے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے یا بیکری سے خریداری کرتے وقت اگر صارف نقد کے بجائے کارڈ سے ادائیگی کا کہتا تو اکثر دکان دار ناپسندیدگی سے انکار کر دیتے۔
اس رویے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بیشتر کاروباری ادارے اپنی آمدن کم ظاہر کر کے ٹیکس چوری کرتے تھے اور ڈیجیٹل ادائیگی اُن کے لیے آمدن چُھپانے کی راہ میں رکاوٹ بنتی تھی۔
پاکستان کی حکومت طویل عرصے سے معیشت کو ڈیجیٹل اور دستاویزی شکل دینے کی کوششوں میں مصروف ہے، لیکن اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ 
تاہم مالی سال 2025-2024 کے بجٹ میں ایک منفرد حکمتِ عملی اپنائی گئی اور اس مرتبہ دکان داروں کے بجائے صارفین کو ترغیب دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
چنانچہ یہ تجویز سامنے آئی کہ جو صارفین کارڈ سے ادائیگی کریں گے اُن پر 18 فیصد کے بجائے صرف پانچ فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا۔
ابتدائی طور پر اس تجویز کو مخالفت کا سامنا رہا اور کئی کاروباری ادارے پوائنٹ آف سیل نظام اپنانے سے ہچکچاتے رہے۔ 
تاہم جب صارفین نے سوشل میڈیا پر بیکریوں، ریسٹورنٹس اور پیٹرول پمپس کی جانب سے کارڈ پر ادائیگی سے انکار کی شکایات کرنا شروع کیں تو ایف بی آر نے نوٹس لیا اور حالات میں بہتری آئی۔
آئندہ بجٹ میں وسعت کی تیاری
اس تجربے کی کامیابی کے بعد وفاقی حکومت مالی سال 2026-2025 کے بجٹ میں دہرے ٹیکس نظام کو دیگر شعبوں تک وسعت دینے پر غور کر رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق اس بار پیٹرولیم کے شعبے میں نمایاں تبدیلی متوقع ہے۔ تجویز یہ ہے کہ ملک بھر کے تمام پیٹرول پمپس پر ڈیجیٹل ادائیگی کی سہولت فراہم کرنا لازمی قرار دیا جائے گا۔
اس تجویز کے مطابق اگر صارف کارڈ، کیو آر کوڈ یا موبائل ایپ کے ذریعے ادائیگی کرے گا تو وہ معمول کا 18 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرے گا۔
تاہم اگر وہ نقد رقم سے ادائیگی کرے گا تو اُسے فی لیٹر دو سے تین روپے اضافی ادا کرنا پڑیں گے۔ اس کا مقصد نقد رقم کے استعمال میں کمی لانا، ٹیکس نظام کو مضبوط بنانا اور معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہے۔

اگر صارف نقد رقم سے پیٹرول خریدے گا تو اُسے فی لیٹر دو سے تین روپے اضافی ادا کرنا پڑیں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فی الحال یہ تجویز فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے زیرِغور ہے، جو پہلے بھی ریٹیل کاروباروں کو دستاویزی بنانے میں چیلنجز کا سامنا کر چکا ہے۔ 
ایف بی آر چاہتا ہے کہ پیٹرول پمپس پر ادائیگی کے لیے کیو آر کوڈ، ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ اور موبائل والٹ جیسے ڈیجیٹل ذرائع لازمی دستیاب ہوں تاکہ لین دین کا سُراغ لگایا جا سکے۔
دیگر شعبے بھی زیرِغور
صرف پیٹرولیم ہی نہیں، حکومت درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کی طرف سے کی جانے والی نقد خریداریوں پر بھی اضافی دو فیصد جی ایس ٹی لگانے پر غور کر رہی ہے، جبکہ ڈیجیٹل ادائیگی کی صورت میں معمول کا 18 فیصد ٹیکس لاگو رہے گا۔
ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے تصدیق کی ہے کہ حکومت کا جھکاؤ کیش لیس معیشت کی طرف ہے، تاہم انہوں نے بجٹ سے قبل مزید تفصیلات بتانے سے گُریز کیا۔
ذرائع کے مطابق یہ پالیسی ماضی کی ’فائلر‘ اور ’نان فائلر‘ تقسیم کی طرز پر ہے، مگر اس بار چھوٹے اور غیر رسمی کاروبار بھی اس کے دائرے میں آئیں گے۔
آسان ڈیجیٹل نظام، مہنگا سامان نہیں
آنے والے بجٹ میں ہر حجم کے کاروبار کے لیے لازمی قرار دیا جائے گا کہ وہ نقد اور ڈیجیٹل دونوں قسم کی ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرے۔ 

ماہرین کہتے ہیں کہ ’جب لوگ اشیا کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے خریدیں گے تو معیشت ڈیجیٹائز ہوگی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی) 

موجودہ پوائنٹ آف سیل نظام کے برعکس اس بار توجہ سستے اور سادہ ڈیجیٹل ذرائع جیسے کیو آر کوڈ پر ہو گی تاکہ مہنگے آلات کی ضرورت نہ پڑے۔
انڈیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اس طرز کے اقدامات سے مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں اور پاکستان بھی اُن کے ماڈل کو اپنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب متعدد مواقع پر اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ ملک کی 9.3 کھرب روپے کی نقد معیشت کو ڈیجیٹائز کر کے ٹیکس چوری کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ڈیجیٹل ادائیگی پر عوام کو ٹیکس مُراعات دینے والے شعبے
اس سے قبل مالی سال 2025-2024 کے بجٹ میں حکومتِ پاکستان نے کئی شعبوں میں ڈیجیٹل ادائیگیوں پر عوام کو مُراعات دی تھیں۔
ان کا دائرہ کار صرف صارفین تک محدود نہیں بلکہ اس اقدام سے حکومت کو بھی کئی اہم معاشی، مالیاتی اور انتظامی فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
یہ دو طرفہ فائدے ملکی معیشت کو جدید خطوط پر اُستوار کرنے اور مالی نظم و ضبط قائم رکھنے میں مدد دے رہے ہیں۔
سب سے نمایاں شعبہ ریستوران اور فوڈ سروسز کا ہے جہاں ڈیجیٹل ادائیگی کرنے پر صارفین کو نمایاں ٹیکس چُھوٹ دی جا رہی ہے۔ 
مثال کے طور پر وفاقی حکومت کے تحت ریستوران میں اگر صارف کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ یا موبائل والٹ سے ادائیگی کرتا ہے تو اس پر صرف 5 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوتا ہے جبکہ نقد ادائیگی پر اس شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ایف بی آر چاہتا ہے کہ پیٹرول پمپس پر کیو آر کوڈ کی سہولت ہو تاکہ لین دین کا سُراغ لگایا جا سکے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح سندھ میں کارڈ سے ادائیگی پر 8 فیصد جبکہ نقد پر 15 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ اس سے صارف کو کھانے پینے جیسی روزمرہ ضروریات میں مالی بچت حاصل ہوتی ہے اور انہیں ڈیجیٹل طریقہ کار اپنانے کی ترغیب ملتی ہے۔
ای کامرس اور آن لائن شاپنگ کے شعبے میں بھی حکومت نے ڈیجیٹل ادائیگیوں پر خصوصی مُراعات رکھی ہیں۔ 
آن لائن خریداری پر بعض اشیا پر ٹیکس کی شرح میں نرمی اور پروموشنل رعایتیں صارفین کو اس طرف راغب کر رہی ہیں۔ اس سے محفوظ، تیز اور ٹریک ایبل لین دین کو فروغ مل رہا ہے۔
سنہ 2025-2024 کے بجٹ میں آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں 79 ارب روپے سے زائد کا بجٹ مختص کیا گیا، اس میں سے 28.9 ارب روپے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن ڈویژن کے لیے رکھے گئے۔ 
ڈیجیٹل ادائیگیوں سے منسلک سٹارٹ اپس، فری لانسرز اور آن لائن سروسز فراہم کرنے والوں کے لیے ٹیکس میں چُھوٹ دی گئی جس سے اس شعبے میں ملازمتوں اور برآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) بھی ڈیجیٹل ادائیگیوں کی صورت میں حکومتی معاونت حاصل کر رہے ہیں، جس میں سبسڈائزڈ قرضے، آسان کاروباری رجسٹریشن اور ٹیکس کی سہولتیں شامل ہیں۔

تجویز کے مطابق اگر صارف کارڈ یا کیو آر کوڈ کے ذریعے ادائیگی کرے گا تو وہ 18 فیصد سیلز ٹیکس دے گا (فائل فوٹو: پِکسابے)

اس سے نہ صرف کاروبار کو سہولت ملتی ہے بلکہ صارفین کو بھی جدید، معیاری اور رعایتی مصنوعات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
سرکاری فیسوں اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کے لیے بھی ڈیجیٹل ذرائع اپنانے پر شہریوں کو آسانیاں دی گئی ہیں۔ 
آن لائن ادائیگی پر قطاروں سے نجات، فوری تصدیق اور بعض صورتوں میں اضافی چارجز سے استثنیٰ جیسے فوائد شامل ہیں۔
حکومت کو حاصل ہونے والے فوائد
ماہرین کے مطابق پیٹرول جیسی لازمی روزمرہ استعمال کی چیز پر دہرے ٹیکس کا نفاذ نہ صرف ڈیجیٹل معیشت کے وژن کو مضبوط کرتا ہے بلکہ یہ صارف کے رویے میں نفسیاتی تبدیلی بھی لاتا ہے۔ 
ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق ’جب لوگ روزانہ پیٹرول، کارڈ سے خریدیں گے تو آہستہ آہستہ وہ دیگر اشیا کی خریداری کے لیے بھی یہی طریقہ کار اختیار کریں گے جس سے مجموعی معیشت ڈیجیٹل ہوگی۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ڈیجیٹل لین دین سے حکومت سبسڈی کی دُرست ہدف بندی کر سکتی ہے۔ آمدن، خرچ اور خرچ کرنے والے کی شناخت کی بنیاد پر وسائل انہی افراد تک پہنچیں گے جو واقعی مستحق ہیں۔‘
مزید یہ کہ ڈیجیٹل ادائیگی سے ہر ٹرانزیکشن کا ریکارڈ بنتا ہے جس سے نہ صرف ٹیکس آمدن میں اضافہ ممکن ہوتا ہے بلکہ ریوینیو کی درست منصوبہ بندی اور کرپشن میں بھی کمی آتی ہے۔
ڈیجیٹل ادائیگیوں کے فروغ کے ساتھ حکومت کو ایک ایسے جدید مالیاتی نظام کی جانب بڑھنے کا موقع مل رہا ہے جہاں پالیسی سازی ڈیٹا کی بنیاد پر ہو، سبسڈیز دُرست جگہ پر جائیں اور معیشت کو وہ شفافیت میسر آئے جو برسوں سے ناپید تھی۔

 

شیئر: