Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سب کو ہنسانے والی پورے گاؤں کو رلا گئی‘، ثنا یوسف کے گاؤں میں سوگ کی فضا

ثنا یوسف کی تدفین گذشتہ روز ان کے آبائی گاؤں چوئنج میں کی گئی۔ (فوٹو: کوثر علی شاہ)
’وہ عید کے بعد چھٹیاں گزارنے کے لیے گاؤں آنے والی تھی مگر کیا خبر تھی کہ تابوت میں آئی گی۔‘ درد سے لبریز یہ الفاظ ثنا یوسف کے چچا کوثر علی شاہ کے تھے، جو اپنی بھتیجی کے قتل پر غم سے نڈھال ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ثنا یوسف ہر برس اپنے والدین کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں منانے چترال آتی تھی جبکہ اس دفعہ بھی انہوں نے عید کے بعد آنے کا کہا تھا۔
’ثنا یوسف نے اپنی والدہ کے گھر بونی میں چھٹیاں گزارنے کا منصوبہ بنایا تھا، پھر ان کا مختلف خوبصورت مقامات میں جاکر ویڈیو کنٹینٹ بنانے کا ارادہ تھا۔ لیکن ثنا کی موت کی خبر نے ہلا کر رکھ دیا ہے، ہمیں کیا خبر تھی کہ عید سے پہلے ہی اس کے جنازے پر تمام اہل خانہ اکٹھے ہوں گے۔‘
خیال رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دو روز قبل دو جون کو سوشل میڈیا انفلونسر ثنا یوسف کو ان کے گھر کے اندر قتل کردیا گیا تھا۔ تاہم اسلام آباد پولیس نے ملزم کو 20 گھنٹے بعد فیصل آباد سے گرفتار کر لیا۔

’ثنا کا خواب ادھورا رہ گیا‘

کوثر علی شاہ نے کہا کہ ثنا یوسف بہت ملنساراور ہنس مکھ لڑکی تھی، وہ اسلام آباد میں رہنے کے باوجود اپنے علاقے کے بارے میں فکر مند رہتی تھی، اس کی خواہش تھی کہ وہ انٹرپرینیور بنے تاکہ علاقے کے لوگوں کی ان کے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کر سے۔
’ثنا کا ارادہ تھا کہ وہ گاؤں کی خواتین کو ڈیجیٹل میڈیا کے شعبے میں تربیت دے تاکہ ان کو بااختیار بنایا جا سکے مگر اس کا خواب ادھورا رہ گیا۔‘
ثنا یوسف کے چچا نے کہا کہ ’پورے خاندان اور چترال کو فخر ہے کہ ثنا نے اپنی عزت کا خیال رکھا اور اس قاتل نوجوان کی دھمکیوں کے باوجود اس کی بات نہ مانی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ثنا نے والدین کی مرضی سے سوشل میڈیا کی دنیا میں قدم رکھا تھا اور ان کے والدین نے ہمیشہ ان کو سپورٹ کیا۔
کوثر علی شاہ نے بتایا کہ ثنا یوسف ایف ایس سی فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔ تعلیمی قابلیت کے ساتھ وہ غیرنصابی سرگرمیوں میں تمام طلبہ سے آگے رہتی تھی۔
’اس کی موت نے ہر چترالی کو افسردہ کر دیا ہے، گاؤں میں سوگ کی فضا ہے، بچے بوڑھے اور خواتین سب ثنا یوسف کو یاد کر کے رو رہے ہیں۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا کہ اپنی باتوں سے سب کو ہنسانے والی اپنے پیچھے سب کو رلا گئی ہے۔‘

’چترالی پُرامن لوگ ہیں لیکن معاشرہ ایسا نہیں‘

چترال کے سوشل ایکٹویسٹ عامر نیاب کے مطابق ’ثنا یوسف کی موت نے نہ صرف اس کے اہل خانہ کو بلکہ پورے ضلع کے درد دل رکھنے والے افراد کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ چترال ایک پُرامن علاقہ ہے یہاں قتل و غارت اور ظلم کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی اسی لیے اس واقعے نے سب کو خوفزدہ کردیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چترالی پرامن لوگ ہیں، کسی لڑائی جھگڑے اور تنازعات سے دور رہتے ہیں اور کسی سے ناحق الجھتے ہیں۔ ہم چترالی ہر کسی کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن یہ معاشرہ ایسا نہیں ہے۔‘
عامر نیاب نے کہا کہ اپر چترال میں شرح خواندگی کا تناسب زیادہ ہے، بیشتر افراد سرکاری ملازمین ہیں۔
’چترال کے لوگ اپنی بیٹی کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس واقعہ میں ملوث ملزم کو عبرتناک سزا دینی چاہیے تاکہ آئندہ کسی بیٹی کے ساتھ ایسا ظلم نہ ہو۔‘
ٹک ٹاکر ثنا یوسف کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال سے تھا اور ان کی تدفین گذشتہ روز ان کے آبائی گاؤں چوئنج میں کی گئی۔

 

شیئر: