پاکستان کی وفاقی حکومت اور تاجروں کے درمیان اگرچہ ہر بجٹ کے موقعے پر ہی کسی نہ کسی معاملے پر تنازعات سر اٹھاتے ہیں، لیکن گذشتہ کئی روز سے جس مسئلے نے نہ صرف تاجروں بلکہ عام شہرہوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے وہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس نادہندگان کی گرفتاری جیسے وسیع اختیارات دینے کا ہے۔
اس صورت حال پر وزیراعظم شہباز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس قوانین میں کسی بھی ترمیم یا اس کے نفاذ کا مقصد کاروباری برادری یا باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والے افراد کو ہراساں کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
وزیراعظم نے ایف بی آر کے اختیارات میں شفافیت لانے اور اس کی مانیٹرنگ بہتر بنانے کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دے دی ہے۔
مزید پڑھیں
-
وزیراعظم آفس اور ایف بی آر کا ’پروفیشنل تعلق‘ کیوں نہ بن سکا؟Node ID: 876968
اس سلسلے میں پیر کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِصدارت ایف بی آر کے امور پر ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں ٹیکس قوانین، بالخصوص سیلز ٹیکس نادہندگان کی گرفتاری کے اختیارات اور ان سے متعلق مجوزہ ترامیم کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں وفاقی وزرا برائے دفاع، قانون، تجارت، اقتصادی امور، اطلاعات و نشریات، وزیر مملکت برائے ریلویز، چیئرمین ایف بی آر، معاشی ماہرین اور دیگر اعلٰی سرکاری حکام شریک ہوئے۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے فنانس بل 26-2025 کے تحت سیلز ٹیکس چوری کی روک تھام، رجسٹریشن کی شرح بڑھانے اور ملک بھر میں ٹیکس کے نظام کو موثر بنانے کے لیے وسیع اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
ان میں سے ایک اہم تجویز ان لینڈ ریونیو افسران کو فوجداری ضابطہ قانون کے تحت وہ اختیارات دینا ہے جن کے تحت وہ ٹیکس چوری میں ملوث افراد اور اداروں کی تفتیش کے ساتھ ساتھ گرفتاری بھی کر سکیں گے اور ان کے خلاف مقدمہ چلا سکیں گے۔
اس مقصد کے لیے قانون میں نئی شقیں بھی شامل کی گئی ہیں جو ٹیکس فراڈ کے مشتبہ افراد کی گرفتاری، بعد از گرفتاری مراحل، اور مشروط رہائی کے طریقہ کار وضع کرتی ہیں۔
قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ اگر کسی کمپنی پر ٹیکس چوری کا الزام ثابت ہو جائے تو اس کے اعلٰی عہدیداران جن میں چیف ایگزیکٹو آفیسرز، ڈائریکٹرز اور دیگر کلیدی افراد شامل ہوں گے، انہیں بھی گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے کمپنی کو قانونی استثنیٰ ہی حاصل کیوں نہ حاصل ہو۔ ان سزاؤں میں 10 برس تک قید، ایک کروڑ روپے تک جرمانہ اور چوری شدہ ٹیکس کی رقم کے مساوی اضافی جرمانہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
تاہم ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی نادہندہ جرمانے کی رقم ادا کر دے تو اسے دوبارہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا تاکہ اصلاح کا راستہ کھلا رہے۔

ان ترامیم پر غور کرتے ہوئے وزیراعظم نے زور دیا ہے کہ ٹیکس قوانین میں کسی بھی ترمیم یا اس کے نفاذ کا مقصد کسی صورت میں باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والے افراد یا کاروباری طبقے کو ہراساں کرنا نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ٹیکس دہندگان کی عزت و وقار ان کے لیے مقدم ہے اور ان کو بلاجواز خوفزدہ کرنا ناقابل قبول ہو گا۔
اس حوالے سے ایف بی آر نے وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹیکس نادہندگان کی گرفتاری کا اختیار نئی بات نہیں بلکہ سنہ 1990 کی دہائی سے مختلف ٹیکس قوانین کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں اعلٰی عدالتوں کے متعدد فیصلوں نے اس اختیار کے دائرہ کار، طریقہ کار اور جواز کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، جس کے پیش نظر ان شقوں میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں تاکہ انہیں شفاف، قابل احتساب اور آئینی دائرہ کار میں لایا جا سکے۔ ان ترامیم کا بنیادی مقصد ٹیکس چوری جیسے سنجیدہ مالی جرائم کو روکنا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سختی سے ہدایت کی کہ ان قوانین کو صرف ان مخصوص کیسز تک محدود رکھا جائے جہاں نادہندگی کی رقم غیرمعمولی ہو، شواہد ٹھوس ہوں اور کارروائی ناگزیر ہو۔
انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک اعلٰی سطح کی خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم بھی دیا، جو نہ صرف ان شقوں کا تفصیلی جائزہ لے گی بلکہ گرفتاری جیسے اختیارات کے استعمال کو ایک مضبوط نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس نظام کے تحت لانے کے لیے تجاویز بھی دے گی۔
