اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران کے خلاف ’تاریخی فتح‘ کا اعلان کیا جبکہ دوسری جانب امریکی خفیہ ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حملوں سے تہران کے جوہری پروگرام کو صرف چند ماہ کے لیے پیچھے کیا جا سکا ہے۔
خبر رساں ادارے اےا یف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولائن لیویٹ نے رپورٹ کو ’بالکل غلط‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس مبینہ جائزے (رپورٹ) کا لیک ہونا صدر ٹرمپ کو نیچا دکھانے کی واضح کوشش ہے اور ان تمام بہادر فائٹر پائلٹس کو بدنام کرنا ہے جنہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے بہترین مشن انجام دیا۔‘
امریکہ نے ایرانی تنصیبات پر بنکرز کو تباہ کرنے والے بم برسائے تھا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے اعلان میں اہم جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
ٹرمپ کی کال کے بعد اسرائیل نے ایران پر مزید حملے ’روک دیے‘Node ID: 891382
امریکی میڈیا نے ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حملوں میں سینٹری فیوجز یا افزودہ یورینیم کے ذخائر مکمل ختم نہیں ہوئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حملوں سے تنصیبات کے داخلی راستے بند ہو گئے ہیں جبکہ زیرِ زمین عمارتیں تباہ نہیں ہوئیں۔
جنگ بندی کے اعلان کے بعد وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی کہا کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں حاصل کر سکے گا، ’ہم نے ایران کے جوہری منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے۔ اور اگر ایران میں کسی نے بھی اس کو دوبارہ بنانے کی کوشش کی تو ہم اسی شدت اور عزم کے ساتھ ان کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔‘
اسرائیلی فوج کا بھی کہنا ہے کہ حملوں کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روز سے جاری لڑائی کے بعد منگل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پیغام میں لکھا کہ دونوں ممالک ’مکمل طور پر جنگ بندی‘ پر رضامند ہو گئے ہیں۔

امریکی صدر کا یہ بیان پیر کو قطر میں امریکی بیس پر ایرانی میزائل حملے کے تھوڑی دیر بعد سامنے آیا تھا جو جوہری تنصیبات پر حملوں کے جواب میں کیا گیا تھا۔
ایرانی حکام نے صدر ٹرمپ کے بیان کے جواب میں کہا تھا کہ جب اسرائیل حملے روکے گا تو وہ بھی روک دیں گے۔
و اضح رہے کہ ایران نے جوہری مقامات پر امریکی بمباری کے جواب میں قطر میں امریکہ کے زیر انتظام العدید ایئر بیس پر میزائل حملے کیے تھے۔
دوسری جانب ایرانی صدر مسعود پیزیشکیان کا کہنا ہے کہ جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ایران جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے ’اپنے جائز حقوق‘ کے حوالے سے زور دیتا رہے گا۔
اسرائیل نے حملوں میں جوہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کے علاوہ رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا جبکہ ایرانی سائنسدانوں اور اعلیٰ فوجی شخصیات کی بھی ہلاکت ہوئی۔ اس کے جواب میں ایران نے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سمیت مختلف مقامات پر میزائل داغے۔