صوبہ پنجاب کے شہروں اور دیہات میں طاقت کی علامت کے طور پر مشہور ’ڈالا کلچر‘ اور اسلحے کی نمائش ان دنوں قانون کی زد میں ہے۔
صوبے میں جرائم کو ختم کرنے کے لیے قائم کیا گیا نیا ادارہ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) ان دنوں ڈالا کلچر اور اسلحے کی نمائش کے خلاف آپریشن کر رہا ہے۔ اور اس بار سیاسی شخصیات کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
22 جون کو گجرات میں ایک سیاسی شخصیت کے ساتھ چلنے والے پانچ غیر قانونی گن مینوں کو ایک ناکے پر گرفتار کیا، نہ صرف اسلحہ ضبط کیا بلکہ پانچ مختلف مقدمات بھی درج کیے گئے۔
مزید پڑھیں
کچھ ایسی ہی صورت حال 11 جون کو ناروال اور ننکانہ میں بھی سامنے آئی جب متعدد طاقت ور شخصیات کے گن مینوں کو گرفتار کیا گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ سی سی ڈی نے صوبے بھر کے ڈسٹرکٹ پولیس افسران (ڈی پی اوز) کے ذریعے طاقت ور شخصیات کو شوکاز نوٹسز بھی جاری کیے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ ’سی سی ڈی کو معلوم ہوا ہے کہ آپ نے گن مین رکھے ہوئے ہیں اور پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کے ذریعے اسلحے کی نمائش میں ملوث ہیں۔‘
’آپ سے گزارش ہے کہ مستقبل میں آپ یا آپ کے کسی رشتہ دار یا دوست نے اسلحے کی نمائش کی، تو قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔‘
یہ نوٹسز سیاسی و غیر سیاسی شخصیات، جاگیر داروں اور بااثر افراد کو بھیجے جا رہے ہیں جو اپنی طاقت کے مظاہرے کے لیے مسلح گن مین اور ’ڈالوں‘ (ٹویوٹا ہائیلکس جیسے پک اپ ٹرکس) کا استعمال کرتے ہیں۔
لیکن کیا یہ کریک ڈاؤن پنجاب کے گہرے جڑ پکڑے اس کلچر کو ختم کر پائے گا؟
ڈالا کلچر: طاقت کی علامت
پنجاب میں ڈالا کلچر کوئی نیا رجحان نہیں۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو دیہاتی جاگیرداری سے لے کر شہری اشرافیہ تک پھیلی ہوئی ہے۔
ٹویوٹا ہائیلکس یا اسی طرح کے بڑے پک اپ ٹرکس، جنہیں مقامی طور پر ’ڈالا‘ کہا جاتا ہے، طاقت، دبدبے، اور سماجی مرتبے کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ شادیوں، مذہبی تقریبات، اور سیاسی ریلیوں میں مسلح گن مینوں کے ساتھ ڈالوں کی قطاریں نظر آنا عام ہے۔
یہ گاڑیاں نہ صرف نقل و حمل کا ذریعہ ہیں بلکہ ان کا استعمال خوف اور دھاک بٹھانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

ماہر سماجیات ڈاکٹر عدنان رفیق کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں اسلحہ اور ڈالوں کی نمائش کی جڑیں 1980 کی دہائی کی عسکریت پسندی اور گرین ریولوشن سے ملتی ہیں۔ عسکریت پسندی کے دور میں اسلحہ رکھنا تحفظ کی ضرورت تھا، لیکن بعد میں یہ طاقت اور عزت کی علامت بن گیا۔ گرین ریولوشن نے زرعی طبقے کو معاشی طور پر مضبوط کیا، جس نے ہتھیاروں اور بڑی گاڑیوں کی خریداری کو فروغ دیا۔‘
ڈالا کلچر نے پنجاب کے معاشرے میں خوف کی فضا پیدا کی ہے۔ شادیوں میں ہوائی فائرنگ جو اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے، اور مسلح گارڈز کی موجودگی سے عام شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اب یہ کلچر تقریبات سے نکل کر سڑکوں پر بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
ڈاکٹر عدنان مزید کہتے ہیں کہ ’یہ کلچر خاص طور پر نوجوانوں کو متاثر کر رہا ہے، جو اسے سٹیٹس سمبل سمجھ کر غیر قانونی اسلحہ حاصل کرتے ہیں۔ اور ان دنوں سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک پر دھاک بٹھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ سوشل میڈیا پر پولیس نے پہلے دن سے ہی اس کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔‘
شادیوں اور تقریبات میں اسلحے کی نمائش
پنجاب میں شادیوں، مذہبی تقریبات اور دیگر سماجی اجتماعات میں ڈالوں اور مسلح گارڈز کی موجودگی ایک عام منظر ہے۔ یہ نہ صرف طاقت کا مظاہرہ ہے بلکہ سماجی حیثیت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر سارہ خان کہتی ہیں کہ ’یہ ایک نفسیاتی رجحان ہے۔ لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے اسلحے اور ڈالوں کا سہارا لیتے ہیں، کیونکہ یہ انہیں طاقتور اور اہم دکھاتا ہے۔‘
شادیوں میں ہوائی فائرنگ سے ہر سال درجنوں اموات بھی ہوتی ہیں۔
بہت سے لوگ پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں سے مسلح گارڈز کرائے پر لیتے ہیں۔ یہ کمپنیاں اکثر غیر قانونی اسلحہ استعمال کرتی ہیں، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ سی سی ڈی نے ایسی کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔
سی سی ڈی کا کریک ڈاؤن
فروری 2025 میں قائم کیا گیا پنجاب پولیس کا ذیلی ادارہ سی سی ڈی سات سنگین جرائم کے خلاف کام کر رہا ہے جس میں قتل، ڈکیتی، قبضہ مافیا، گینگسٹر نیٹ ورکس، منشیات، اسلحے کی نمائش، اور ڈالا کلچر شامل ہیں۔
