کوئٹہ: تاجر کے اغوا ہونے والے بیٹے کی لاش پہاڑوں سے برآمد، ’ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر تاوان مانگا گیا تھا‘
جمعہ 27 جون 2025 17:38
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے سات ماہ قبل اغوا ہونے والے تاجر کے 10 سال کے بیٹے کی لاش مستونگ کے ایک پہاڑی علاقے سے برآمد کرلی گئی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ’اغوا میں کالعدم تنظیم داعش ملوث تھی جس نے ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر (تقریباً 3 ارب 40 کروڑ روپے) تاوان طلب کیا تھا۔
کوئٹہ کے معروف صراف (جیولر) راز محمد کاکڑ کے بیٹے تیسری جماعت کے طالب علم محمد مصور کاکڑ کو گذشتہ سال 15 نومبر کو کوئٹہ کے علاقے ملتانی محلہ سے اغوا کیا گیا۔
مصور کاکڑ کو اپنے گھر کے قریب سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ سکول وین میں گھر سے سکول جا رہا تھے۔ مسلح افراد نے وین روک کر اُنہیں اُتارا اور دوسری گاڑی میں منتقل کر کے فرار ہوگئے۔
حکام کے مطابق ’اغوا کے سات ماہ سے زائد عرصے بعد 23 جون کو بچے کی لاش کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے پہاڑی اور دُشوارگزار علاقے سپلنجی سے ملی جو کالعدم تنظیموں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔‘
تاہم لاش پرانی اور ناقابل شناخت ہونے کی وجہ سے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کیا گیا۔
ڈی آئی جی کوئٹہ اور سی ٹی ڈی بلوچستان کے سربراہ اعتزاز احمد گورائیہ نے ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند کے ہمراہ جمعہ کو کوئٹہ میں نیوز کانفرنس میں واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ 23 جون کو لاش ملنے کے بعد ورثا کو اطلاع دی گئی اور اس کے بعد لاش اور والدین کے ڈی این اے نمونے لے کر خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور کی فورینزک لیب بھیجے گئے۔ جمعے کی صبح فورینزک لیب نے اپنی رپورٹ میں تصدیق کی کہ یہ مصور کاکڑ کی لاش ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ حکومت، کوئٹہ پولیس اور سکیورٹی اداروں نے بچے کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں۔ اغوا میں ملوث گروہ کی نشان دہی کرکے اس سے جُڑے کئی پہلوؤں کا سُراغ لگایا اور کئی افراد کو گرفتار بھی کیا گیا، تاہم بچے کی بحفاظت بازیابی میں کامیاب نہیں ہوئے جس پر ہمیں افسوس ہے۔
اعتزاز گورائیہ کے مطابق ’اس کیس میں عام جرائم پیشہ گروہ نہیں بلکہ ایک منظم دہشت گرد گروہ داعش ملوث تھا۔‘
’اغوا کے پہلے ماہ کے دوران ملزمان نے چار بار ٹھکانے تبدیل کیے۔ ہم پہلے ہفتے میں دو ٹھکانے تلاش کر چکے تھے مگر بدقسمتی سے ہر بار وہ ہمارے پہنچنے سے پہلے فرار ہوگئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بچے کی بحفاظت بازیابی میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، تاہم اس میں نظام کی مجموعی خامیوں کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں۔‘
’ہمیں غیر قانونی افغان باشندوں کی موجودگی، نان کسٹم پیڈ گاڑی، غیر قانونی اسلحہ، جعلی بینک اکاؤنٹ کے استعمال اور کرایہ داری کے قوانین کی خلاف ورزی جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کے لیے ان خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم خاندان کو یقین دلاتے ہیں کہ اغوا کاروں اور اس کیس میں ملوث ہر کردار کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائےگا۔‘
ڈی آئی جی پولیس اعتزاز گورائیہ نے کیس کی تفتیش سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مصور کاکڑ کے اغوا کے فوراً بعد تفتیش شروع کردی گئی تھی۔
’پولیس کی جانب سے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس میں خفیہ ادارے بھی شامل تھے۔تحقیقات کے دوران دو ہزار گھروں، 1200 سے زائد کرائے کے مکانات کی تلاشی لی گئی اور ایک ہزار سے زائد سی سی ٹی وی فوٹیجز کا جائزہ لیا گیا۔‘
ان کے مطابق ’اغوا کے صرف دو روز بعد وہ گاڑی برآمد کر لی گئی جو اس واردات میں استعمال ہوئی جسے بعد ازاں ایک شوروم میں کھڑا کر دیا گیا تھا۔‘
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ’اغوا کے پانچ روز بعد 20 نومبر کو مشرقی بائی پاس پر ایک گھر کی نشان دہی ہوئی جہاں بچے کو رکھا گیا تھا مگر اغواکار وہاں سے فرار ہو چکے تھے۔‘
’22 نومبر کو دوسرا ٹھکانہ بھی تلاش کیا گیا لیکن وہاں سے بھی ملزمان پہلے ہی نکل چکے تھے۔ ان گھروں سے ملنے والے شواہد اور سُراغ سے معلوم ہوا کہ اغوا میں کالعدم عالمی دہشت گرد تنظیم داعش ملوث تھی۔‘
’اس کے علاوہ داعش سے جُڑے باجوڑ سے تعلق رکھنے والا طیب شاہ اور دو افغان باشندے بھی اس کارروائی میں شامل تھے۔اس کیس کے حوالے سے باجوڑ میں بھی کارروائیاں ہوئیں۔ تحقیقات کے دوران سندھ میں بھی اس کیس سے جُڑی سرگرمیوں کے شواہد ملے۔‘
اعتزاز گورائیہ نے مزید بتایا کہ ’فیس ب‘ک اور واٹس ایپ جیسی انٹرنیشنل کمپنیوں نے پہلی بار تعاون کرتے ہوئے ڈیٹا فراہم کیا جس سے معلوم ہوا کہ ملزمان نے کوئٹہ کی ایک دکان کا وائی فائی استعمال کیا۔ مزید پتا چلا کہ گاڑی کی مرمت گاہی خان چوک میں کروائی گئی تھی۔’
انہوں نے بتایا کہ ’اغواکاروں کو اسلحہ قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان میں ایک شخص نے فروخت کیا جسے گرفتار کر لیا گیا۔ ملزمان نے نان کسٹم پیڈ غیر رجسٹرڈ گاڑی استعمال کی اور جعلی افغان دستاویزات کے ذریعے کرائے پر گھر حاصل کیا، اس میں کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی۔‘
اعتزاز گورائیہ نے انکشاف کیا کہ ’اغوا کاروں نے بچے کی بازیابی کے لیے ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر تاوان طلب کیا تھا۔ مذاکرات کے دوران تمام کالز افغانستان اور ایران کے نمبروں سے آتی تھیں۔ ایرانی اور افغان سفارت خانوں سے بھی رابطہ کیا گیا جنہوں نے تعاون کیا اس پر ہم ان کے مشکور ہیں۔‘
ڈی آئی جی پولیس کے مطابق ’25 اور 26 اپریل کو مستونگ کے علاقے دشت میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی گئی جہاں ایک حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا اور دوسرا فائرنگ میں زخمی ہوا۔‘
’بعد ازاں مارے گئے دہشت گرد کی شناخت داعش کے کمانڈر عمران رِند کے طور پر ہوئی جو سندھ کے علاقے سیہون میں ہونے والے ایک دہشت گرد حملے میں بھی مطلوب تھا۔ اس گھر کو بھی مصور کاکڑ کو چھپانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مستونگ میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے کیمپوں کے خلاف آپریشن ہوئے تو مغوی بچے کو دشت سے سپلنجی منتقل کیا گیا اور پھر گولی مار کر قتل کرکے وہیں دفن کر دیا گیا۔‘
’اپریل کے آخر میں ہمیں ذرائع سے اُن کی موت کی خبر ملی تھی مگر تصدیق نہ ہو سکی اس لیے ان تمام علاقوں میں تلاش شروع کی گئی جہاں داعش کے کیمپ قائم تھے اور جہاں فورسز نے کارروائیاں کی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مستونگ میں سپلنجی حساس اور دُشوارگزار علاقہ ہے جہاں بچے کی باقیات کی تلاش آسان کام نہیں تھا۔ ڈیڑھ سے دو ماہ کی کوششوں کے بعد بالآخر 23 جون کو سپلنجی سے بچے کی لاش ملی جہاں اسے دفنایا گیا تھا۔‘
’یہ ظاہری طور پر مغوی بچے مصور کاکڑ کی لاش معلوم ہوتی تھی جو دو ماہ سے زائد پرانی تھی۔ بعد ازاں ڈی این اے سے اس کی حتمی تصدیق بھی ہوگئی۔‘
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے اس کیس پر مکمل توجہ دی۔ وزیراعلیٰ ذاتی طور پر اس کی نگرانی کرتے رہے اور متاثرہ خاندان سے مسلسل رابطے میں رہے۔‘
’خاندان کو اس کیس کی ہر پیش رفت پر اعتماد میں لیا گیا، انہوں نے ہر ممکن تعاون کیا اور کیس کی رازداری کو برقرار کھا۔ہمیں افسوس ہے کہ بچے کی جان نہیں بچا سکے۔‘
خیال رہے کہ محمد مصور کاکڑ کوئٹہ کے معروف تاجر راز محمد کاکڑ کے بیٹے تھے۔ ان کا آبائی تعلق پشین کے برشور سے ہے۔ مغوی کے والد سونے کا کاروبار کرتے ہیں۔
اغوا کے بعد بچے کے چچا حاجی ملنگ کاکڑ نے بتایا تھا کہ خاندان کا کسی سے کوئی جھگڑا یا دشمنی نہیں، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بچے کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ’مصور عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسی سکول سے قرآن بھی حفظ کر رہا تھا۔ وہ والدین کا لاڈلہ بچہ اور ہم سب کا پیارا ہے۔‘ لواحقین نے تب بھی اغوا کاروں کی جانب سے بچے کو نقصان پہنچانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
مغوی بچے کے چچا کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گھر کا ایک دوسرا بچہ بھی چار سال قبل قتل کیا گیا۔ اس کے ملزم اب تک نہیں پکڑے گئے۔‘
واقعے کے خلاف کوئٹہ میں مغوی کے لواحقین، سیاسی و سماجی تنظیموں، وکلا، طلبہ اور اساتذہ نے سخت احتجاج کیا۔ بلوچستان اسمبلی اور ہائی کورٹ کے باہر دو ہفتے تک دھرنا دیا گیا، شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالیں ہوئیں۔ بلوچستان اسمبلی اور ہائی کورٹ میں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر حاجی اختر کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’مصور کاکڑ اغوا کا ہائی پروفائل کیس تھا، تاہم پولیس اس میں بچے کو بحفاظت بازیاب کرانے میں ناکام رہی۔‘