امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی سفیر برائے مشرق وسطیٰ نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور قطر جنوبی لبنان میں اسرائیلی سرحد کے قریب ایک اکنامک زون میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں، جو اس وقت روزگار کے مواقع فراہم کرے گا جب حزب اللہ کے جنگجو اور اس کے حامی ہتھیار ڈال دیں گے۔
عرب نیوز کے مطابق ٹام بیرک نے یہ بیان بیروت میں دیا، جہاں وہ اسرائیل اور شام کے دورے کے بعد پہنچے تھے۔ ان دوروں کے دوران انہوں نے وہاں کے حکام سے لبنان کی تازہ صورتحال پر گفتگو کی، جو لبنانی حکومت کے رواں ماہ کے اس فیصلے کے بعد پیدا ہوئی ہے کہ حزب اللہ کو اس برس کے اختتام تک غیرمسلح کر دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جائے: شاہ سلمان کا خطابNode ID: 506886
-
جنوبی لبنان میں اسرائیلی حملے میں ایک شخص ہلاک، دو زخمیNode ID: 891877
-
امریکہ کے ساتھ جاری معاملات ناقابلِ حل ہیں: ایرانی سپریم لیڈرNode ID: 893728
تاہم حزب اللہ کے سربراہ نے اس حکومتی منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے ہتھیار نہ ڈالنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
پیر کو اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ اگر لبنانی حکومت کا حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے کا ’تاریخی فیصلہ‘ عملی شکل اختیار کرتا ہے تو اسرائیلی افواج جنوبی لبنان کے ان علاقوں سے انخلا شروع کر سکتی ہیں جو اس کے قبضے میں ہیں۔
امریکی حمایت یافتہ لبنانی فوج حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے کا منصوبہ تیار کر رہی ہے جو اگست کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ حکومت سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ یہ منصوبہ دو ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں زیرِغور لائے گی اور منظوری دے گی۔
امریکہ کے خصوصی سفیر برائے مشرق وسطیٰ ٹام بیرک نے لبنانی صدر جوزف عون سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں نظام میں پیسہ لانا ہو گا، اور یہ پیسہ خلیجی ممالک سے آئے گا۔ قطر اور سعودی عرب ہمارے شراکت دار ہیں اور وہ جنوبی لبنان کے لیے یہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس 40 ہزار افراد ہیں جنہیں ایران لڑنے کے لیے ادائیگیاں کر رہا ہے۔ ان سے ہتھیار لے کر کہیں گے کہ ’جاؤ اب زیتون کے درخت اگاؤ؟‘ یہ ممکن نہیں۔ ہمیں ان کی مدد کرنا ہو گی۔‘
ٹام بیرک کا اشارہ حزب اللہ کے ان ہزاروں جنگجوؤں کی جانب تھا جنہیں 1980 کی دہائی سے تہران مالی معاونت فراہم کر رہا ہے۔
امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ’ہم سب یعنی خلیجی ممالک، امریکہ اور لبنان مل کر ایک ایسا اقتصادی فورم قائم کریں گے جو روزگار فراہم کرے گا۔‘
اس سوال پر کہ امریکہ حزب اللہ کے معاملے پر براہِ راست ایران سے بات کیوں نہیں کرتا، انہوں نے کہا کہ ’آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو رہا؟ خدا حافظ۔‘
یہ کہہ کر ٹام بیرک نے اپنی نیوز کانفرنس ختم کی اور کمرے سے چلے گئے۔
گذشتہ برس اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ میں حزب اللہ کو شدید نقصان اٹھانا پڑا، جس میں تنظیم کے کئی رہنما اور جنگجو مارے گئے۔ امریکہ کی ثالثی سے ہونے والے امن معاہدے کے تحت لبنانی حکومت کو تمام مسلح گروہوں کو غیرمسلح کرنا لازم ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نعیم قاسم نے کہا کہ حزب اللہ اور اس کی اتحادی جماعت امل نے امریکی حمایت یافتہ منصوبے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کو فی الحال موخر کر دیا ہے تاکہ حکومت سے مکالمے کو موقع دیا جا سکے، تاہم مستقبل میں مظاہرے امریکی سفارت خانے کے سامنے بھی ہو سکتے ہیں۔