پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے سے یہ بات مقبول ہے کہ اگر سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) نہ ہوا ہوتا تو پاکستان فائدے میں رہتا۔ بہت سے لوگ اس ایشو کو جانے اور سمجھے بغیر آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان نے اپنے تین دریا انڈیا کو بیچ ڈالے اور یوں بڑا نقصان ہوگیا۔
آج کل پھر پنجاب سیلابوں کی زد میں ہے تو ایک بار پھر سندھ طاس معاہدے کا تنقیدی ذکر آ رہا ہے۔ کیا واقعی یہ الزامات اور تنقید درست ہے؟ کیا سندھ طاس معاہدہ نہیں ہونا چاہیے تھا؟ آخر اس معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس وقت کے حکمراں پاکستان یا پنجاب کے دشمن تو نہیں تھے کہ یکایک ایک دن صبح سو کر اٹھے اور ناشتے کی میز پر فیصلہ کیا کہ بہت ہو چکی، اب پنجاب کے تین مشرقی دریا انڈیا کو بیچ دینے چاہییں۔
ویسے بیچ دینے کی اصطلاح بھی خوب ہے، بڑی ہوشیاری سے یہ گھڑی گئی ہے۔ کیا ان دریاؤں کے بدلے نوٹوں کی بوریاں لے لی گئی تھیں؟ ظاہر ہے نہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کی نگرانی اور ثالثی سے باقاعدہ معاہدہ ہوا تھا کہ یہ پاکستان کے حصے میں اور وہ انڈیا کے حصے میں سمجھے جائیں گے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کریں گے: امیت شاہNode ID: 891220
آئیے اس پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاک انڈیا آبی تنازع کب اور کیوں کھڑا ہوا؟
تقسیم کے وقت یہ زیادتی ہوئی یا حالات کا جبر کہہ لیں کہ پنجاب کی اہم نہروں کے ہیڈورکس انڈیا میں رہ گئے۔
انگریزوں کا ایک احسان تو اس خطے پر ہے کہ انہوں نے پنجاب کے لیے ایک پیچیدہ، دنیا کا سب سے بڑا اور مربوط نہری نظام بنایا۔
نہری نظام کے بنیادی ڈھانچے (ہیڈورکس) اس طرح بنائے گئے تھے کہ ایک دریا سے نہر نکال کر دوسرے دریا تک لے جایا جا سکے۔
جب پاکستان اور انڈیا دو الگ ملک بنے تو یہ نہری نظام سرحدوں میں تقسیم ہوگیا اور کئی اہم ہیڈورکس انڈیا کے حصے میں آگئے۔
اہم ہیڈورکس جو انڈیا میں رہ گئے ان میں مادھوپور ہیڈورکس (دریائے راوی پر)، فیروزپور ہیڈورکس (دریائے ستلج پر) اور ہریکے ہیڈورکس (دریائے ستلج پر) شامل ہیں۔
سندھ طاس معاہدے سے پہلے ہونے والے آبی تنازعات
پاکستان بننے کے ایک سال کے اندر ہی اپریل 1948 کو انڈیا نے دریائے ستلج اور بیاس کی نہروں کا پانی پاکستان کی طرف روک دیا۔
اس اقدام سے پاکستان میں سخت بحران پیدا ہوا، خاص طور پر لاہور، فیصل آباد اور ملتان کے زرعی علاقے شدید متاثر ہوئے۔
پاکستان نے اسے ’آبی جارحیت‘ کہا جبکہ بھارت نے اسے انتظامی مسئلہ قرار دیا۔ ایک عبوری معاہدہ ہوا، مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔

دوسرا تنازع اور ورلڈ بینک تک جانا
سنہ 1949 میں ایک مرتبہ پھر پانی کی تقسیم پر پاک انڈیا کشیدگی شروع ہوئی۔ پاکستان نے عالمی برادری کو مداخلت کے لیے کہا لیکن انڈیا دو طرفہ مذاکرات پر زور دیتا رہا۔ یہ جھگڑا چلتا رہا۔ حتیٰ کہ سنہ 1951 میں پاکستان نے انڈیا کے ساتھ مذاکرات کے کئی ناکام دور کے بعد یہ مسئلہ ورلڈ بینک کے سامنے اٹھایا۔
ورلڈ بینک نے پہلی مرتبہ ثالثی کی پیشکش کی۔ چند ماہ معاملہ چلتا رہا، پھر سنہ 1952 میں ورلڈ بینک نے دونوں ممالک کو باضابطہ مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ غیر جانب دار عالمی ماہرین نے فریقین کے دریائی بہاؤ اور زرعی ضروریات کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا۔
سندھ طاس معاہدے کی ابتدائی تجویز
عالمی بینک نے سنہ 1954 میں اپنی پہلی تقسیم کی تجویز پیش کی کہ مشرقی دریا (ستلج، راوی، بیاس) انڈیا کو جبکہ مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کے پاس چلے جائیں۔ انڈیا رضامند ہوگیا، تاہم پاکستان کو ابتدا میں سخت تحفظات تھے تاہم اس پر مذاکرات جاری رہے۔
اگلے دو برس (1955، 1956) مذاکرات کا سلسلہ مختلف شہروں (واشنگٹن، دہلی، کراچی وغیرہ) میں چلتا رہا۔
پاکستان نے اصرار کیا کہ انڈیا کا مغربی دریاؤں پر کوئی کنٹرول نہ ہو۔ انڈیا بضد رہا کہ وہ ہائیڈرو پاور (اور سٹوریج) کے منصوبے ان دریاؤں پر چلا سکتا ہے۔ اسی دوران پاکستان میں شدید خشک سالی اور نہری پانی کی کمی نے حکومت پر دباؤ بڑھایا۔
پھر اگلے دو برسوں (1957، 1958) ورلڈ بینک نے پاکستان کو قائل کیا کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان میں بڑے ڈیمز کے لیے فنڈ دیں گے تاکہ پاکستان کے پاس اضافی پانی جمع ہو اور متبادل نہریں، بیراج وغیرہ بن سکیں۔ اس یقین دہانی پر پاکستان نے مشرقی دریاؤں کو انڈیا کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی شرط البتہ یہ تھی کہ مغربی دریاؤں کے بہاؤ پر اس کا بنیادی حق برقرار رہے۔

اگلے برس (1959) مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوئے۔ ایک تفصیلی ڈرافٹ تیار ہوا، جس میں دریاؤں کی تقسیم، ڈیمز کی تعمیر (منگلا، تربیلا وغیرہ) اور مالی امداد کی تفصیل شامل تھی۔ دونوں ممالک نے بنیادی نکات پر رضامندی ظاہر کی۔ ورلڈ بینک، امریکہ اور دیگر ڈونر ممالک نے مالی امداد دینے پر اتفاق کیا۔
سندھ طاس معاہدہ
19 ستمبر 1960 کو کراچی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے۔ دستخط کرنے والوں میں پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان، انڈیا کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور ورلڈ بینک کے صدر یوجین بلیک شامل تھے۔
اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا یعنی ستلج، بیاس اور راوی پر انڈیا کو مکمل کنٹرول مل گیا جبکہ تین مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔
پاکستان کو ان دریاؤں کے 80 فیصد سے زیادہ پانی استعمال کرنے کا حق ملا۔ سندھ طاس معاہدے کے مطابق انڈیا تینوں مغربی دریاؤں جہلم، چناب اور سندھ پر بڑے سٹوریج ڈیم نہیں بنا سکتا، وہ ان دریاؤں کا رخ نہیں بدل سکتا اور ان کے پانی کو زراعت کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ تاہم رن آف ریور ڈیم بعض شرائط کے ساتھ بنانے کا اسے حق ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے پاکستان کو تین بڑے فائدے ملے۔
پاکستان کے مغربی دریا انڈیا کے دباؤ سے آزاد ہو گئے۔ باضابطہ طور پر ہمارا ان تینوں دریاؤں پر حق تسلیم کر لیا گیا۔
سندھ طاس معاہدے نے پاکستان کی آبی سلامتی کو یقینی بنایا۔ چونکہ تقسیم کے وقت کئی ہیڈورکس انڈیا میں رہ گئے تھے، یہ خدشہ موجود تھا کہ انڈیا پانی روک سکتا ہے۔ معاہدے نے اس خدشے کو کم کیا اور پاکستان کو اپنے حصے کے دریاؤں پر مکمل کنٹرول دیا۔
سندھ طاس معاہدے کے فوری بعد سنہ1961 میں ورلڈ بینک نے انڈس بیسن ڈویلپمنٹ فنڈ (IBDF) قائم کیا اور اس میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دیگر مغربی ممالک نے فنڈز دیے۔

بڑے ڈیمز اور لنک کینالز کی تکمیل
انہیں فنڈز سے دریائے جہلم پر منگلا ڈیم سنہ 1961 میں شروع ہوا جو چھ برس کے بعد سنہ 1967 میں مکمل ہوا۔ منگلا ڈیم بننے کے فوری بعد انہی فنڈز سے اور ورلڈ بینک کے ماہرین کی معاونت سے سنہ 1967 میں دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم بننا شروع ہوا جو نو برس بعد سنہ 1976 میں مکمل ہوا۔
تربیلا ڈیم اپنی نوعیت کا منفرد ڈیم ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا مٹی اور پتھر (Earth & Rockfill) کا ڈیم ہے جو کنکریٹ سے نہیں بلکہ مٹی، ریت اور پتھر کی فلنگ سے بنایا گیا ہے۔ اسی تربیلا ڈیم کی وجہ سے دریائے سندھ پر آنے والے کئی سیلابوں سے ملک کی بچت ہوئی۔
تربیلا پاکستان کا سب سے بڑا پن بجلی گھر بھی ہے۔ منگلا اور تربیلا سے ملک میں لاکھوں ایکڑ غیرآباد اراضی کاشت ہو پائی۔ منگلا اور تربیلا کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف آبپاشی بلکہ سستی پن بجلی بھی ملی۔ آج بھی پاکستان کی بجلی کا بڑا حصہ انہی منصوبوں سے آتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے بعد بننے والے فنڈز ہی کی مدد سے چشمہ بیراج اور لنک کینال سسٹم بنایا گیا تاکہ مشرقی دریاؤں کی کمی پوری ہو۔ دریائے سندھ اور مغربی دریاؤں کا پانی پنجاب اور سندھ کی نہروں تک پہنچایا گیا۔ اس سے زرعی علاقے بنجر ہونے سے بچ گئے۔
یوں سندھ طاس معاہدے نے پاکستان کے زرخیز میدانوں (خاص طور پر پنجاب اور سندھ) کو پانی کی مستقل سپلائی دی۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو انڈیا مشرقی دریاؤں کے بعد مغربی دریاؤں پر بھی دباؤ بڑھاتا جس سے پاکستان کی زراعت تباہ ہو سکتی تھی۔
سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بینک کی گارنٹی کے ساتھ ہوا، اس لیے اںڈیا کسی بھی وقت یک طرفہ طور پر مغربی دریاؤں پر کنٹرول نہیں کر سکتا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک انٹرنیشنل لیگل شیلڈ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا اعلان نہیں کر سکے، صرف معطل کرنے کی بات کی، اس کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ عالمی عدالتوں میں جانے پر انڈیا ہی کو شکست ہو گی۔
سندھ طاس معاہدے کے نقصانات
ایمانداری کا تقاضا ہے کہ اس معاہدے کے نقصانات پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی دریاؤں سے ہاتھ دھونا نقصان دہ تھا کیونکہ یہ تینوں دریا براہِ راست پاکستان کے مشرقی پنجاب میں داخل ہوتے تھے (لاہور، قصور، بہاولپور وغیرہ کے قریب)، ان دریاؤں کا پانی پاکستان کی سب سے زرخیز نہروں کو سیراب کرتا تھا، جیسے باری دوآب کینال سسٹم (راوی و ستلج سے) اور سدھنائی و دیگر نہریں بہاولپور اور ملتان کے علاقے میں بیاس و ستلج سے۔ یہ وہی علاقے ہیں جو ’پاکستان کی اناج کی ٹوکری‘ (Breadbasket) کہلاتے ہیں۔

مشرقی دریا چھوٹے اور مقامی تھے۔ ان پر ڈیمز یا نہریں بنا کر پانی تقسیم کرنا آسان تھا۔ مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) بڑے اور دور دراز کے ہیں۔ ان کے پانی کو مشرقی پنجاب تک لانا پیچیدہ اور مہنگا پڑا۔
فائدہ زیادہ یا نقصان؟
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھا جائے تو سندھ طاس معاہدے کے پاکستان کو فوائد زیادہ ملے۔ ہمارے پاس کوئی اور آپشن تھی ہی نہیں۔ خاص کر جنگِ ستمبر (1965) کے بعد کے انڈیا کے معاندانہ رویے کو دیکھا جائے تو سندھ طاس معاہدہ غنیمت لگتا ہے جو پانچ سال قبل ہو گیا تھا، ورنہ سنہ 65ء کے بعد انڈیا کبھی نہ مانتا اور ہمیشہ پاکستانی پنجاب کے مشرقی اور مغربی دریاؤں پر اپنا دباؤ برقرار رکھتا اور اہم مواقع پر بار بار پانی بند کرکے پاکستانی کاشت کاروں کو پریشان کرتا رہتا۔ سندھ طاس معاہدے نے یہ مسئلہ بڑی حد تک حل کر دیا۔
انڈینز سندھ طاس معاہدہ کو کیسے دیکھتے ہیں؟
سندھ طاس معاہدہ چونکہ کانگریس کے سربراہ پنڈت نہرو نے کیا تھا، اس لیے کانگریس اس کی ستائش ہی کرتی رہی ہے۔ تاہم بی جے پی اور خاص طور پر وزیراعظم مودی کے ادوار میں سندھ طاس معاہدے پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ بی جے پی کے سیاست دانوں اور ماہرین کا خیال ہے کہ تب کی انڈین حکومت نے پاکستان کو زیادہ رعایت اور سہولتیں دیں جو کہ نہیں دینی چاہیے تھیں۔
پاکستان نے غلطی کہاں کی؟
ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہمیں اپنے دریاؤں پر مزید بڑے ڈیم بنا لینے چاہیے تھے۔ ہم کالا باغ ڈیم اگر ستر کے عشرے میں بنا لیتے تو بہت اچھا رہتا، بعد میں اسے غیرضروری طور پر متنازع ہو جانے دیا۔

سندھیوں کے ڈیلٹا والے ایشو اور تحفظات کو دور کیا جاتا تو کالا باغ کی مخالفت کم ہو سکتی تھی۔ تاہم اگر کالا باغ ڈیم متنازع ہو گیا تھا تو بیس پچیس سال اس کے چکر میں پڑنے اور لاحاصل کوشش کے بجائے تب ہی بھاشا ڈیم بنا لیتے۔
اگر مشرف دور میں بھاشا پر کام شروع ہو جاتا تو یقینی طور پر یہ 10 برس پہلے مکمل ہو جاتا، ہمارے پاس بڑا واٹر سٹوریج ڈیم ہوتا بلکہ چار ہزار میگاواٹ سے زیادہ سستی بجلی بھی ملتی۔
بھاشا کے بعد بونجی ڈیم بھی بن جانا تھا جو رن آف ریور ڈیم ہے، مگر اس سے سات ہزار میگاواٹ بجلی مل جانی ہے۔ ہم پچھلے 20 برسوں کے دوران اکھوڑی ڈیم ہی بنا لیتے۔ آزاد کشمیر میں جہلم پر کئی رن آف ریور ڈیم بھی بن سکتے تھے۔
ہماری ایک اور بڑی غلطی دریاؤں (راوی، ستلج، چناب وغیرہ) کے راستوں پر سوسائٹیاں اور آبادیاں قائم ہونے دینا ہے۔ یہی غلطی سندھ کے بیٹ میں آبادیاں بنانے دینا ہے۔
