Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں 60 لاکھ روپے کے جعلی نوٹ برآمد، ’ایک لاکھ روپے کا پیکٹ 16 ہزار میں ملتا ہے‘

پولیس کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ایک شخص بھاری مقدار میں جعلی کرنسی لے کر کراچی داخل ہونے والا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
رات کی تاریکی میں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹول پلازہ پر پولیس نے ایک مسافر کو معمول کی تلاشی کے دوران روکا۔ سب کچھ عام سا لگ رہا تھا، لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ منظر سامنے آیا جس نے اہلکاروں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔
اس عام سے دکھنے والے مسافر کے بیگ سے ساٹھ لاکھ روپے مالیت کے جعلی نوٹ برآمد ہوئے، جو اتنی مہارت سے تیار کیے گئے تھے کہ بظاہر اصلی لگتے تھے۔ اس گرفتاری نے ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ جعلی کرنسی کا نیٹ ورک کہاں تک پھیلا ہوا ہے اور اصل ذمہ دار کون ہیں؟
یہ کارروائی 19 اگست 2025 کی رات کی گئی۔ پولیس کو پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی کہ بھاری مقدار میں جعلی نوٹ کراچی پہنچائے جا رہے ہیں۔
تلاشی کے دوران جب بیگ کھولا گیا تو درجنوں پیکٹ برآمد ہوئے، ہر پیکٹ میں ایک لاکھ روپے کے نوٹ تھے۔ بعد ازاں ان نوٹوں کو جانچنے پر پتہ چلا کہ یہ سب کے سب جعلی ہیں۔ ملزم نے ابتدائی تفتیش میں یہ اعتراف کیا کہ وہ کئی ماہ سے یہ کام کر رہا ہے۔
ملزم کی شناخت اور انکشافات
ایس ایچ او گڈاپ سرفراز جتوئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گرفتار ملزم کی شناخت اسفند کے نام سے ہوئی ہے جو پشاور کا رہائشی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پولیس نے اسفند کی گرفتاری کے بعد اپنی تفتیش تیز کر دی ہے۔ اب سی سی ٹی وی فوٹیجز، موبائل ڈیٹا اور دیگر ریکارڈز کی مدد سے اس نیٹ ورک کے باقی افراد تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسفند کی نشاندہی پر دیگر افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ پولیس کی ٹیمیں پہلے ہی متحرک ہو چکی ہیں اور امکان ہے کہ جلد مزید گرفتاریاں سامنے آئیں گی۔‘
کتنا منافع اور کس کے لیے؟
ملزم نے انکشاف کیا کہ ’وہ یہ نوٹ درہ کے علاقے سے لے کر آیا ہے، جہاں جعلی کرنسی کی تیاری اور تقسیم کا ایک منظم دھندا ہو رہا ہے۔‘
اس کے مطابق ایک لاکھ روپے مالیت کے جعلی نوٹ صرف 16 سے 17 ہزار روپے میں دستیاب ہوتے ہیں، اور کوریئر کو فی پیکٹ دو ہزار روپے کمیشن دیا جاتا ہے۔ اس بار وہ چوں کہ ساٹھ لاکھ روپے کے نوٹ کراچی لا رہا تھا تو اس لیے اسے ایک لاکھ روپے معاوضہ ملنے والا تھا۔‘
اس اعتراف سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ اس پورے دھندے میں کوئی ایک شخص نہیں بلکہ  ایک منظم نیٹ ورک ملوث ہے۔
کراچی اور ملتان بڑے مراکز کیوں؟

ملزم کے بیانات نے یہ واضح کیا کہ جعلی کرنسی کا کاروبار محض ایک شہر تک محدود نہیں (فوٹو: سندھ پولیس)

پولیس ذرائع کے مطابق جعلی کرنسی کی یہ ترسیل صرف کراچی تک محدود نہیں۔ ملتان سمیت دیگر بڑے شہروں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
بڑے تجارتی مراکز اور ہول سیل منڈیاں اس کاروبار کا سب سے آسان ہدف ہیں۔ وہاں روزانہ کروڑوں روپے کا لین دین ہوتا ہے اور نوٹوں کی تصدیق کے لیے وقت نہیں ملتا۔ یہی وہ کمزوری ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی نوٹ بڑی آسانی سے گردش میں لائے جا رہے ہیں۔
جعلی کرنسی کے معاشی اثرات
ماہرین معاشیات کے مطابق جعلی کرنسی کا پھیلاؤ کسی بھی ملک کے مالیاتی نظام کو سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک طرف یہ عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو دوسری جانب کاروباری طبقے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ تاجر جب جعلی نوٹ وصول کرتے ہیں تو ان کو نہ صرف مالی طور پر نقصان ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات قانونی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
اسی بارے میں ایک اور ماہر نے کہا کہ ’جعلی کرنسی کے بڑھنے سے افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب جعلی نوٹ مارکیٹ میں بڑھتے ہیں تو اصل کرنسی کی قدر گھٹتی ہے اور معیشت پر دباؤ بڑھتا ہے۔‘
شہریوں میں خوف اور خدشات
کراچی جیسے شہر میں جہاں پہلے ہی جرائم کی شرح بلند ہے، جعلی کرنسی کے اس کاروبار نے شہریوں میں مزید خدشات پیدا کر دیے ہیں۔
کئی شہریوں کا کہنا ہے کہ اب وہ ہر نوٹ کو قبول کرنے سے پہلے باریک بینی سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ تاجر برادری بھی اس معاملے کو سنگین خطرہ قرار دیتی ہے۔ 
ایک ہول سیل ڈیلر نے کہا کہ ’روزانہ لاکھوں روپے کا لین دین ہوتا ہے، اگر ان میں جعلی نوٹ شامل ہو جائیں تو نہ صرف کاروباری نقصان ہوتا ہے بلکہ اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے۔‘

ایس ایچ او سرفراز جتوئی نے کہا کہ ’پولیس ہرگز اس کیس کو نظر انداز نہیں کرے گی۔‘ (فوٹو: سندھ پولیس)

یہ سوال اب شدت سے اٹھ رہا ہے کہ اس دھندے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ اسفند کی طرح کے کوریئرز تو صرف ایک کڑی ہیں، مگر جن کے اشاروں پر یہ پورا نظام چل رہا ہے وہ ابھی تک پردے میں ہیں۔
اس واقعے نے یہ حقیقت بھی عیاں کی ہے کہ جعلی کرنسی محض ایک جرم نہیں بلکہ ایک ایسا خطرہ ہے جو عام شہری سے لے کر قومی معیشت تک سب کو متاثر کرتا ہے۔
ایس ایچ او سرفراز جتوئی نے کہا کہ ’پولیس ہرگز اس کیس کو نظر انداز نہیں کرے گی اور اس نیٹ ورک کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ ’کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں تاکہ جعلی کرنسی کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے اسفند کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور عدالت سے اس کا ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔‘
پولیس کی کارروائیاں اپنی جگہ اہم ہیں، مگر یہ جنگ صرف چند گرفتاریوں سے ختم نہیں ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی ادارے، سکیورٹی ایجنسیاں اور مالیاتی ادارے ایک مشترکہ حکمت عملی بنائیں اور ساتھ ہی عوام کو بھی اس خطرے سے آگاہ کریں۔
اگر ایسا نہ ہوا تو وہ دن دور نہیں جب ہر خریدار کو یہ خدشہ لاحق ہوگا کہ اس کے ہاتھ میں موجود نوٹ اصلی ہیں یا جعلی۔ اور جب کسی ملک کی کرنسی پر عوام کا اعتماد ہی متزلزل ہو جائے تو پھر معیشت کا وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ چناں چہ فوری طور پر فیصلہ کن اقدام کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

 

شیئر: