پاکستان نے انڈیا افغانستان اور ایران کے ساتھ سپیکٹرم میں مداخلت کا معاملہ حل کرکے فائیو جی ٹیکنالوجی کی فراہمی میں اہم رکاوٹ دور کر دی ہے۔
فریکوئنسی الاٹمنٹ بورڈ (ایف اے بی) نے نہ صرف قیمتی بینڈز کو خالی کر کے کمرشل استعمال کے لیے تیار کر دیا ہے بلکہ مجموعی طور پر 606 میگا ہرٹز فریکوئنسی نیلامی کے لیے مختص کر دی ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے پارلیمنٹ کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق دفاعی اداروں کی جانب سے تعاون کے نتیجے میں دو فریکوئینسی لائینز 700 میگا ہرٹز بینڈ اور 2300 میگا ہرٹز کا ایک بڑا حصہ خالی کرایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
اسی کے ساتھ ملک بھر میں وائرلیس لوکل لوپ (ڈبلیو ایل ایل) سروسز کی ری فریمنگ کے ذریعے 3500 میگا ہرٹز بینڈ میں 285 میگا ہرٹز سپیکٹرم محفوظ کر لیا گیا ہے۔ یہ بینڈ دنیا بھر میں فائیو جی ٹیکنالوجی کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور پاکستان کے لیے بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
فریکوئنسی یا سپیکٹرم ایسی نظر نہ آنے والی لہریں ہیں جن پر موبائل سروسز اور انٹرنیٹ چلتا ہے۔ ان لہروں کو جب ایک ملک اپنے صارفین کے لیے استعمال کرتا ہے تو بعض اوقات یہ سگنلز بارڈر کے اُس پار بھی چلے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر پاکستان کے کسی سرحدی ضلع میں فورجی یا فائیو جی کے سگنلز چل رہے ہوں تو یہ لہریں انڈیا یا افغانستان کے قریبی علاقوں تک بھی پہنچ سکتی ہیں۔ اسی طرح وہاں سے آنے والے سگنلز پاکستان کے اندر آ سکتے ہیں۔ اس صورتحال کو ’اسپِل اوور‘ کہا جاتا ہے، اور یہ نہ صرف سروس میں خلل ڈال سکتا ہے بلکہ سیکورٹی اور آپریشنل مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔
پاکستان کے معاملے میں یہ مسئلہ انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ زمینی سرحدوں پر زیادہ شدت سے موجود تھا جبکہ عمان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ یہ معاملہ سمندری حدود کے قریبی علاقوں میں سامنے آیا۔ مثال کے طور پر بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ایران اور عمان کے موبائل سگنلز کبھی کبھار پاکستانی نیٹ ورکس پر حاوی ہو جاتے تھے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بارڈر پر افغان نیٹ ورکس کی لہریں بھی آ جاتی تھیں۔ پنجاب اور سندھ کے بارڈر ایریاز میں انڈین سگنلز کے اسپِل اوور کی شکایات بھی ملتی رہی ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور فریکوئنسی الاٹمنٹ بورڈ (ایف اے بی) نے خصوصی سرحدی سروے کیے۔
موبائل ٹاورز کے قریب سپیکٹرم کی پیمائش کی گئی تاکہ معلوم ہو سکے کہ کہاں کہاں پر اوورلیپ ہو رہا ہے۔ اس کے بعد ہمسایہ ممالک کے ریگولیٹرز سے رابطہ کیا گیا اور باضابطہ میٹنگز اور ٹیکنیکل سیشنز رکھے گئے۔

ان مذاکرات میں یہ طے کیا گیا کہ ہر ملک اپنے سپیکٹرم کو ’ہارمونائز‘ کرے گا، یعنی ایسی فریکوئنسی استعمال کرے گا جو دوسرے ملک کی فریکوئنسی سے نہ ٹکرائے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان 3500 میگا ہرٹز کے ایک حصے کو فائیو جی کے لیے استعمال کرے تو انڈیا اور افغانستان اس حصے سے ہٹ کر دوسرا حصہ استعمال کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ سگنلز کی پاور (یعنی شدت) پر بھی پابندیاں لگائی گئیں تاکہ وہ بارڈر کے پار نہ جا سکیں۔
پی ٹی اے حکام کے مطابق طویل بات چیت اور تعاون کے بعد اب صورتحال کافی بہتر ہے اور اسپِل اوور کے مسائل بڑی حد تک کم ہو گئے ہیں۔ یہی اقدامات مستقبل میں پاکستان میں فائیو جی نیٹ ورک کی ہموار فراہمی کو ممکن بنائیں گے کیونکہ اگر یہ ہم آہنگی نہ ہوتی تو نئے نیٹ ورکس شروع ہوتے ہی سرحدی علاقوں میں بڑی رکاوٹیں کھڑی ہو جاتیں۔
پی ٹی اے کے مطابق ایف اے بی کے 50 ویں اجلاس میں متعدد بینڈز کی نیلامی کے لیے دستیابی کی منظوری دی گئی ہے۔ مجموعی طور پر 606 میگا ہرٹز اسپیکٹرم نیلامی کے لیے دستیاب ہے، تاہم 161.6 میگا ہرٹز اب بھی عدالتی مقدمات میں پھنسا ہوا ہے۔
سب سے بڑا تنازعہ 2600 میگا ہرٹز بینڈ میں 140 میگا ہرٹز سپیکٹرم کا ہے، جسے عالمی سطح پر فورجی اور فائیو جی دونوں کے لیے سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 2100 میگا ہرٹز اور 1800 میگا ہرٹز بینڈز میں بھی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ان قانونی رکاوٹوں کے باعث نیلامی کا عمل تاخیر کا شکار ہے اور ٹیلی کام آپریٹرز کی ممکنہ شمولیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
پارلیمنٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ سپیکٹرم نیلامی کے لیے بنائی گئی مشاورتی کمیٹی اس وقت دو بڑے چیلنجز پر غور کر رہی ہے۔ پہلا چیلنج پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار کے مجوزہ انضمام کو حتمی شکل دینا ہے اور دوسرا چیلنج 2600 میگا ہرٹز بینڈ میں جاری عدالتی مقدمات کو جلد حل کرنا ہے۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ یہ مسائل فوری طور پر نمٹائے جائیں تاکہ قومی مفاد میں فائیو جی کا آغاز ممکن ہو سکے۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس پیش رفت کے نتیجے میں دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایات کے مطابق اب فائیو جی سپیکٹرم کی نیلامی ہر صورت دسمبر 2025 تک مکمل کر لی جائے گی۔ شفافیت اور مؤثریت اس عمل کا بنیادی اصول ہوگا اور نیلامی وقت پر کرانے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اسی دوران آکشن سپروائزری کمیٹی (اے ایس سی) کا اجلاس بھی پیر کو طلب کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں اس مشیر کی رپورٹ پیش کی جائے گی جسے نیلامی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ نیلامی کے حتمی فیصلوں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے بعد باضابطہ منظوری دی جائے گی۔
خیال رہے کہ فائیو جی سپیکٹرم کی نیلامی پہلے ہی کئی مرتبہ التوا کا شکار ہو چکی ہے۔