گلگت بلتستان میں مارخور کے شکار کے پرمٹ کی ریکارڈ تین لاکھ ڈالر سے زائد میں نیلامی
گلگت بلتستان میں مارخور کے شکار کے پرمٹ کی ریکارڈ تین لاکھ ڈالر سے زائد میں نیلامی
جمعہ 5 ستمبر 2025 16:46
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
شکاری کو مقررہ وقت میں صرف وہی جانور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے جس کا پرمٹ حاصل کیا گیا۔ (فائل فوٹو: محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات)
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے تحت مارخور کے شکار کے پرمٹ کی نیلامی میں اس برس ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ استوری مارخور کے شکار کا پرمٹ تین لاکھ 70 ہزار ڈالر یعنی تقریباً 10 کروڑ 30 لاکھ روپے میں فروخت ہوا، جو اب تک کی سب سے بڑی بولی ہے۔ اس سے پہلے کبھی بھی پاکستان میں یا خاص طور پر گلگت بلتستان کے اس پروگرام میں اتنی بڑی رقم پر کوئی پرمٹ فروخت نہیں ہوا۔
گلگت بلتستان میں محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کی جانب سے کی جانے والی نیلامی میں بڑی تعداد میں مقامی اور غیرملکی شکاری شریک ہوئے۔ 26-2025 کے سیزن کے لیے کل 118 پرمٹ نیلام ہوئے جن میں چار استوری مارخور، 100 ہمالیائی آئبیکس اور 14 بلیو شیپ شامل ہیں۔
بولی کے عمل کے دوران شکار سفاری کے مالک راجہ فرہاد مقپون نے سب سے زیادہ بولی لگا کر نانگا پربت کنزرویسی ایریا میں استوری مارخور کے شکار کا پرمٹ حاصل کیا۔
باقی تین پرمٹ بھی کروڑوں روپے میں نیلام ہوئے۔ ایک دو لاکھ 86 ہزار ڈالر (تقریباً آٹھ کروڑ روپے)، دوسرا دوس لاکھ 70 ہزار ڈالر (سات کروڑ 54 لاکھ روپے) اور تیسرا دو لاکھ 40 ہزار ڈالر (چھ کروڑ 70 لاکھ روپے) میں فروخت ہوا۔
بلیو شیپ کے شکار کا سب سے بڑا پرمٹ محمد علی نگری نے 40 ہزار ڈالر (تقریباً ایک کروڑ 11 لاکھ روپے) میں حاصل کیا جبکہ انہوں نے ہمالیائی آئبیکس کا پرمٹ بھی 13 ہزار ڈالر (36 لاکھ روپے) میں خریدا۔
قواعد کے مطابق پرمٹ حاصل کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ اسے اوپن بولی کے ذریعے نیلام کیا جاتا ہے جس میں مقامی اور غیرملکی شکاری یا ان کے نمائندے شرکت کرتے ہیں۔ پرمٹ حاصل کرنے والے شکاری کو صرف مخصوص ایریا اور مدت میں شکار کی اجازت ملتی ہے، اور وہ بھی صرف ایک جانور کے لیے۔ شکار سے پہلے شکاری کو فیس جمع کرانی پڑتی ہے اور محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے قواعد کی سختی سے پابندی ضروری ہوتی ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں نہ صرف پرمٹ منسوخ کیا جاتا ہے بلکہ بھاری جرمانے اور قانونی کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
شکاری کو مقررہ وقت میں صرف وہی جانور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے جس کا پرمٹ حاصل کیا گیا ہو، جبکہ نایاب اور ممنوعہ جانوروں کو ہر حال میں چھوڑنا لازمی ہے۔ شکار کے دوران محکمہ سرکاری اہلکار نگرانی کرتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ شکاری ضابطوں کی خلاف ورزی نہ کرے۔
گذشتہ برس 25-2024 کے سیزن میں گلگت بلتستان میں مارخور کے شکار کا سب سے بڑا پرمٹ ایک لاکھ 61 ہزار ڈالر میں نیلام ہوا تھا جس سے حکومت کو تین کروڑ روپے سے زائد آمدنی ہوئی۔ اس سے پہلے خیبر پختونخوا کے علاقے چترال میں دو لاکھ 71 ہزار ڈالر (سات کروڑ 56 لاکھ روپے) میں مارخور کے شکار کا پرمٹ فروخت ہوا تھا۔ لیکن موجودہ سال کی تین لاکھ 70 ہزار ڈالر کی بولی نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
پرمٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی مقامی سطح پر جنگلی حیات کے تحفظ اور ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)
مقامی ماہرین کے مطابق اس اضافے کی وجہ محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کی جانب سے بیس پرائس بڑھانا بھی ہے۔ اس بار مارخور کے پرمٹ کی بیس پرائس بڑھا کر دو لاکھ ڈالر رکھی گئی تھی، جبکہ بلیو شیپ کے لیے 30 ہزار اور آئبیکس کے لیے 10 ہزار ڈالر مقرر کیے گئے تھے۔ پچھلے سال مارخور کا بنیادی ریٹ ایک لاکھ 50 ہزار ڈالر، بلیو شیپ کا نو ہزار ڈالر اور آئبیکس کا صرف پانچ ہزار 500 ڈالر تھا۔
اس پروگرام کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ پرمٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تقریباً 80 فیصد حصہ مقامی کمیونٹیز کو دیا جاتا ہے۔ یہ رقوم مقامی سطح پر جنگلی حیات کے تحفظ اور ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پہلے نایاب جانوروں کی تعداد گھٹ رہی تھی، اب ان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مقامی لوگ نہ صرف شکار کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے حاصل ہونے والے مالی فوائد کی وجہ سے جنگلی حیات کے تحفظ میں خود بھی حصہ لیتے ہیں۔