Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: ایک ماہ کے دوران آٹے کی قیمت میں 40 فیصد سے زائد اضافہ، عوام پریشان

کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں صرف ایک ماہ کے دوران  آٹے کی قیمتوں میں 40 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جس کے باعث غریب اور متوسط طبقہ شدید پریشانی کا شکار ہے۔
کوئٹہ کی مارکیٹ میں 20 کلو آٹے کا تھیلہ جو چند ہفتے پہلے 1600 روپے میں فروخت ہوتا تھا اب 2300 روپے سے کم میں دستیاب نہیں۔
اسی طرح 100 کلوگرام کی بوری کی قیمت ساڑھے سات سے آٹھ ہزار روپے سے بڑھ کر ساڑھے گیارہ ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح فی کلوگرام  آٹے کی قیمت میں 35 سے 40 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
کوئٹہ میں آٹے کے ایک تاجر رحمت اللہ نے بتایا کہ یہ اضافہ صرف گذشتہ دو سے تین ہفتوں کے دوران ہوا ہے اور قیمتوں میں مزید اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے کوئٹہ کے رہائشی صلاح الدین نے بتایا کہ دو سال پہلے تک آٹے کی قیمت بہت زیادہ تھی تاہم گذشتہ برس سال کم ہو گئی تھی۔
’آٹے کی قیمت میں اس کمی سے غریبوں کو کچھ راحت مل گئی تھی، تاہم اب اچانک بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بہت پریشان کردیا ہے کہ بچوں کو دو وقت کی روٹی کیسے فراہم کریں۔‘
حکام کے مطابق قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ پنجاب حکومت کی جانب سے گندم اور آٹے کی صوبے سے باہر ترسیل پر پابندی ہے۔ 
محکمہ خوراک بلوچستان کے ایک افسر نے بتایا کہ صوبے کی آٹے اور گندم کی ضروریات کا تقریباً تین چوتھائی حصہ پنجاب سے آتا ہے لیکن ترسیل بند ہونے سے بحران پیدا ہوا ہے۔
ان کے مطابق نصیرآباد ڈویژن جو بلوچستان میں گندم پیدا کرنے والا سب سے بڑا علاقہ ہے وہاں بھی آٹے کی ترسیل بولان میں بی بی نانی پُل کو سیلاب سے پہنچنے والے نقصان کے باعث معطل ہے۔
آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کی مرکزی کمیٹی کے چیئرمین بدر الدین کاکڑ کا کہنا ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافہ صرف بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور دیگر صوبوں میں بھی ہوا ہے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا۔
ان کے مطابق اصل وجہ سیلاب نہیں بلکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ایک ہفتہ قبل آٹے کی صوبے سے باہر ترسیل پر لگائی گئی پابندی ہے  جس نے طلب اور رسد کا توازن بگاڑ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی 74 فیصد گندم پنجاب میں پیدا ہوتی ہے لیکن پنجاب حکومت نے اپنے صوبے میں روٹی 14 روپے میں فراہم کرنے کے لیے نرخ مصنوعی طور پر کم رکھنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس پالیسی نے نہ صرف کسانوں کو نقصان پہنچایا بلکہ دوسرے صوبوں کے صارفین بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
ان کے مطابق گذشتہ برس بھی حکومت کی جانب سے کم نرخ مقرر کرنے کے باعث کسان اپنی لاگت پوری نہیں کر سکے اور گندم بڑے پیمانے پر جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال ہوئی۔ اس نقصان کے بعد کسان گندم اُگانے میں دلچسپی نہیں لے رہے  اور اب اس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔
بدر الدین کاکڑ کے مطابق اس وقت ملک میں تقریباً پانچ کروڑ بوری (50 لاکھ ٹن) گندم کی کمی ہے۔ پاکستان کی سالانہ ضرورت 31 کروڑ 50 لاکھ سو کلو والی بوریاں ہے لیکن پیداوار صرف 28 کروڑ بوریاں رہی۔ 
ان کے بقول اگر درآمد کی بھی جائے تو عالمی منڈی میں 100 کلو گندم 10 ہزار روپے سے کم میں دستیاب نہیں ہوگی، اس لیے درآمد سے قیمتوں میں کمی کے امکانات نہیں ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر گندم کے نرخ مصنوعی طور پر برقرار رکھے گئے تو کسان گندم اُگانے سے مزید ہچکچائیں گے جس سے آئندہ فصل بھی بُری طرح متاثر ہوگی۔
بدر الدین کاکڑ کا کہنا ہے کہ حکومت صرف پنجاب پر توجہ دے رہی ہے جبکہ باقی صوبے شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں جس کے باعث آٹے کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

شیئر: