Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ناقص وائرنگ یا ہائی وولٹیج‘، مری میں گھروں کو آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ کیوں؟

محسن عباسی کا تعلق ضلع مری کی یونین کونسل سہر بگلہ کے گاؤں بیرگراں سے ہے۔ ان کے والد نے تقریباً دس سے بارہ برس قبل بڑی محنت اور برسوں کی جمع پونجی سے ایک گھر تعمیر کیا تھا جو تمام بہن بھائیوں کے لیے مسکن اور خوشیوں کا مرکز تھا۔
یہی وہ جگہ تھی جہاں ہنسی خوشی کے دن گزرتے تھے مگر محض دو دن قبل ایک شارٹ سرکٹ نے پلک جھپکتے میں اس گھر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
محسن عباسی اور ان کے اہلِ خانہ کی آنکھوں کے سامنے ان کی قیمتی اشیا اور برسوں کی محنت کا اثاثہ جلتا رہا لیکن وہ بے بسی کے عالم میں کچھ نہ کر سکے۔
پاکستان کے مشہور سیاحتی مقام مری میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران آگ لگنے کے 97 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں گھروں میں شارٹ سرکٹ کے 19 واقعات بھی شامل ہیں۔ محسن عباسی بھی انہی بدقسمت متاثرین میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اتوار کے روز بجلی کی مین لائن سے آنے والے زیادہ وولٹیج کے باعث شارٹ سرکٹ ہوا اور گھر میں آگ بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے آٹھ کمرے مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گئے‘
صورتِ حال اب یہ ہے کہ جسم پر موجود کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا اور وہ اپنے رشتہ داروں کے ایک کچے مکان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مری میں بجلی کے وولٹیج کا مسئلہ عام ہے۔ اسی روز زلزلے کے جھٹکوں کے بعد وولٹیج میں اچانک فرق آیا اور پڑوس کے گھروں میں برقی آلات خراب ہوئے۔‘
محسن عباسی نے مزید بتایا کہ ان کے گھر میں جب آگ لگی تو ریسکیو کو اطلاع دی گئی، لیکن ریسکیو کی ٹیم دو گھنٹے بعد پہنچی اور ان کے پہنچنے تک آگ اپنا کام کر چکی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو ٹیم کے پاس اگر چھوٹی گاڑی ہوتی تو وہ جلدی پہنچ سکتے تھے مگر وہ بڑی گاڑی لے کر آئے جس کی وجہ سے پہنچنے میں وقت لگا۔

مری میں آگ لگنے کے کُل 97 میں سے 59 واقعات جنگلات میں آگ لگنے کے تھے (فوٹو: اے اہف پی)

اردو نیوز کو دستیاب ریسکیو 1122 کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع مری میں مارچ 2025 سے اگست 2025 تک مجموعی طور پر آگ لگنے کے97 واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں چار افراد ہلاک ہوئے۔
ان میں سے 19 واقعات گھروں میں شارٹ سرکٹ کے باعث پیش آئے، جبکہ 59 واقعات جنگلات میں آگ لگنے کے تھے۔ باقی واقعات میں باورچی خانے سے آگ لگنے کے دو، گیس لیکیج کا ایک، موم بتی سے تین اور دیگر مختلف وجوہات کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات شامل ہیں۔
آتشزدگی کے ان واقعات سے 25 رہائشی مکانات، 10 تجارتی عمارتیں اور 62 دیگر مقامات متاثر ہوئے۔ ان واقعات کے نتیجے میں کئی کروڑ روپے کا نقصان ہوا، جبکہ بروقت کارروائی کے باعث کروڑوں روپے کا نقصان ہونے سے بچا لیا گیا۔
’مری میں مؤثر ڈسٹری بیوشن نظام موجود نہیں‘
مری کے ڈپٹی کمشنر آغا ظہیر عباس شیرازی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گھروں میں آتشزدگی کی وجہ صارفین کے علاوہ بجلی تقسیم کار کمپنیاں بھی ہیں۔‘

ایس ڈی او پنڈی پوائنٹ (مری) محمد علی کے مطابق پرانی یا ناقص وائرنگ شارٹ سرکٹ کا باعث بنتی ہے (فوٹو: سکرین گریب)

ان کے مطابق اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کا مری میں مؤثر ڈسٹری بیوشن نظام موجود نہیں ہے جس سے وولٹیج میں اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ دوسری جانب گھروں کے اندر برقی نظام بھی معیار کے مطابق نہیں ہوتا جسے وہ ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو 1122 اور ضلعی انتظامیہ نے آگاہی مہم چلائی ہے مگر جب تک یہ بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے، خطرہ برقرار رہے گا۔
دوسری طرف آئیسکو نے وولٹیج میں اتار چڑھاؤ کے الزامات کی تردید کی ہے۔ ایس ڈی او پنڈی پوائنٹ (مری) محمد علی نے وضاحت کی کہ آئیسکو کی ذمہ داری صرف میٹر تک بجلی پہنچانے تک محدود ہے، جبکہ گھر کے اندر وائرنگ کی ذمہ داری صارف کی ہوتی ہے۔
ان کے مطابق پرانی یا ناقص وائرنگ شارٹ سرکٹ کا باعث بنتی ہے اور مری میں لکڑی کے ڈھانچوں والے گھروں میں آگ پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے شہریوں کو مشورہ دیا کہ ہر دو سے پانچ سال بعد وائرنگ چیک کروائیں تاکہ کسی حادثے سے بچا جا سکے۔

قمر نیاز کا کہنا تھا کہ آگ لگنے کے بیشتر واقعات میں شارٹ سرکٹ اور بے احتیاطی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے (فوٹو: سکرین گریب)

اردو نیوز نے مری ریسکیو 1122 کے کوآرڈینیٹر قمر نیاز عباسی سے بھی رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آگ لگنے کے واقعات کے بعد ریسکیو 1122 کا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟ قمر نیاز عباسی نے بتایا کہ ملک بھر کی طرح مری میں بھی ریسکیو 1122 کسی بھی آگ لگنے کے واقعے کے بعد فوری طور پر حرکت میں آتی ہے اور جہاں تک ممکن ہو، بروقت موقع پر پہنچتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آگ لگنے کے بیشتر واقعات میں شارٹ سرکٹ اور بے احتیاطی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ’مری کے دور دراز علاقوں میں ریسکیو آپریشن خاصا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ بروقت پہنچنے کے لیے مرکزی اور لنک سڑکوں کا بہتر ہونا اور راستوں کا کچا یا دشوار نہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے باوجود دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ بروقت اور مؤثر ریسکیو آپریشن مکمل کیا جائے۔‘

 

شیئر: