اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ ’اس نے منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک فضائی حملے کے دوران حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق قطر نے اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی مسلح تنظیم کے رہنماؤں کی رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی ہے۔
قطر، جو غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں ایک اہم ثالث رہا ہے، کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلی حملوں کے دوران دوحہ میں حماس کے سیاسی بیورو سے وابستہ ارکان کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا گیا،‘ یہیں فلسطین کے عسکریت پسند گروپ کی سینیئر قیادت بھی مقیم ہے۔
مزید پڑھیں
-
صبح سے شام تک صرف خوراک کی تلاش، غزہ کے ایک خاندان کی زندگیNode ID: 892931
غزہ میں حماس کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذکرات کرنے والے رہنماؤں کو دوحہ میں ’نشانہ‘ بنایا گیا، اگرچہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا اس حملے میں کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔
دوحہ میں اے ایف پی کے ساتھ کام کرنے والے ایک ویڈیو جرنلسٹ نے نسبتاً ایک کم بلند عمارت کے عقب سے دھوئیں کے بادل اُٹھتے ہوئے دیکھے۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’حماس کی قیادت کے یہ ارکان گذشتہ کئی برسوں سے اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کے آپریشنز کی نگرانی کر رہے تھے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ ارکان 7 اکتوبر 2023 کے سفاکانہ قتلِ عام اور اسرائیل کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی میں بھی ملوث تھے۔‘
اسرائیل کے ایک فوجی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’دوحہ میں کیے گئے آپریشن کا نام سمٹ آف فائر ہے۔ یہ فضائی حملے تھے۔‘
قطر نے دوحہ میں حماس کے ہیڈکوارٹرز پر ’اسرائیل کے بُزدلانہ حملے‘ کی مذمت کی ہے اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
قطری وزراتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ’ایکس‘ پر ایک بیان میں کہا کہ ’قطر کی ریاست اسرائیل کی جانب سے دارالحکومت دوحہ کی رہائشی عمارتوں میں واقع حماس کے سیاسی بیورو کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتی ہے۔‘

منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحہ پر یہ حملہ مغرب کی حمایت یافتہ خلیجی ریاست پر اسرائیل کی جانب سے کیا گیا پہلا حملہ ہے جو اس کی مسلح افواج کے سربراہ کی جانب سے حماس کی قیادت کے خلاف چند روز قبل دیے گئے بیان کے بعد کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کی مسلح افواج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے چند روز قبل حماس کے بیرونِ ملک مقیم رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔
ایال ضمیر نے 31 اگست کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’حماس کی زیادہ تر قیادت بیرونِ ملک مقیم ہے اور ہم اس تک بھی پہنچیں گے۔‘
حماس اور اسرائیل کے درمیان تقریباً دو سال سے جاری غزہ جنگ کے دوران قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی کے لیے بالواسطہ مذاکرات کے متعدد ادوار منعقد ہوچکے ہیں۔
اس دوران دو مرتبہ کی عارضی جنگ بندی کے باوجود مذاکرات کے ذریعے غزہ کی جنگ کا تاحال خاتمہ نہیں ہو سکا۔













