Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور: ’مذاق نہیں ذہنی ٹارچر‘، نئے طلبہ کو ’فول‘ بنانے کی روایت کے خلاف مہم

پشاور کے منصور احمد نے کہا کہ ’انہوں نے فُولنگ کے خلاف کمشنر پشاور کو سوشل میڈیا کے ذریعے شکایت کی ہے۔‘ (فوٹو: حشام خان)
تعلیمی اداروں میں نئے آنے والے طلبہ کے ساتھ فُولنگ کا رجحان کوئی نیا نہیں، لیکن وقت کے ساتھ یہ معمولی شرارت ذہنی دباؤ اور جسمانی اذیت میں بدل گئی ہے۔  پشاور میں بھی ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی نئے آنے والے طلبہ کو فُولنگ کے نام پر ہراساں کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
سرکاری تعلیمی اداروں سمیت نجی کالجوں کے باہر طلبہ کو سزا دے کر خوش آمدید کیا گیا جبکہ کچھ طلبہ کے ساتھ توہین آمیز رویہ بھی اختیار کیا گیا جن کی باقاعدہ ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ بھی کی گئی ہیں۔
کالج کے گیٹ کے باہر اور بی آرٹی سٹاپس پر سینیئر طلبہ کے گروپ نے جونیئرز کو پکڑ پکڑ کر سزا دی جبکہ کچھ ایک کے ساتھ ہاتھا پائی کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔
فُولنگ کسے کہتے ہیں؟
یہ کالج یا تعلیمی اداروں میں نئے داخل ہونے والے طلبہ کو ’خوش آمدید‘ کہنے کا انوکھا انداز ہے جس میں تعارف کے وقت سینیئر طلبہ جونیئر طلبہ کو تنگ کرتے ہیں۔
بیش تر تعلیمی اداروں میں نئے طلبہ کو شرارتاً مرچیں یا کھٹی چیز کھلا کر تنگ کیا جاتا ہے یا پھر جونیئر طلبہ سے گانے سنے جاتے ہیں۔ فُولنگ کلچر تمام تعلیمی اداروں میں عام ہے۔
کمشنر پشاور کو شکایت
پشاور کے منصور احمد کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے فُولنگ کے خلاف کمشنر پشاور کو سوشل میڈیا پر شکایت درج کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ فُولنگ کی آڑ میں تضحیک کرنے والے طلبہ کو سزا دی جائے تاکہ کوئی طالب علم آئندہ ایسی حرکت نہ کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کالج کے باہر آؤٹ سائیڈر نوجوان بھی سینیئر بن کر نئے طلبہ سے فُولنگ کرتے ہیں۔‘  
شہری منصور احمد کے مطابق فُولنگ میں تعارف کی حد تک تنگ کرنا کوئی قباحت نہیں مگر طالب علموں کو ہاتھ لگانا اور ان سے غیراخلاقی حرکتیں کروانا انتہائی نامناسب اور ناقابلِ معافی فعل ہے۔
انہوں نے پولیس سے بھی مطالبہ کیا کہ کالج کے باہر ایسی حرکات کرنے والے طالب علموں پر نظر رکھی جائے۔
اسلامیہ کالج میں فُولنگ پر مکمل پابندی

اسلامیہ کالج انتظامیہ کے مطابق کالج کے اندر کسی بھی طالب علم کے ساتھ فُولنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا (فوٹو: اے پی پی)

پشاور کی تاریخی درس گاہ اسلامیہ کالج میں نئے طلبہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی فُولنگ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ چیف پراکٹر کی جانب سے 25 اگست کو جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے تحت سینیئر طلبہ کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ 
کالج انتظامیہ کے مطابق رواں سال فُولنگ روکنے کے لیے پیشگی اقدامات کیے گئے ہیں۔ نئے ایڈمیشن لینے والے طالب علموں کو ایک ہفتہ پہلے کالج بلاکر ان کی کلاسز شروع کر دی گئیں۔ اسی طرح تمام پراکٹرز کو فُولنگ روکنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اسلامیہ کالج انتظامیہ کے مطابق کالج کے اندر کسی بھی طالب علم کے ساتھ فُولنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تاہم گیٹ سے باہر واقعات کا علم نہیں ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ایسے طلبہ جن کے خلاف فُولنگ کی شکایات موصول ہوں گی تو ان طالب علموں کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لیا جائے گا۔ 
فُولنگ کے خلاف مہم 
پشاور کے تعلیمی اداروں میں پہلی بار فُولنگ کے خلاف مہم شروع کی گئی ہے جس میں ابتدائی طور پر اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ سینیئر طلبہ نے حصہ لیا تاہم دیگر طلبہ تنظیمیں بھی اس مہم میں شریک ہوئیں۔ اینٹی فُولنگ مہم میں سینیئر طلبہ نے کلاس رومز میں جا کر نئے طلبہ کو خوش آمدید کہا اور انہیں یقین دلایا کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی فُولنگ یا بدتمیزی نہیں کی جائے گی۔
سینیئر طلبہ کی جانب سے جونیئرز کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کی عزت کا بھرپور خیال رکھا جائے گا۔ اسلامیہ کالج پشاور سمیت دیگر معروف تعلیمی اداروں میں بھی فُولنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے مہم جاری ہیں۔

رب نواز کا کہنا ہے کہ کہ ’اینٹی فُولنگ مہم میں فیکلٹی سٹاف نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے‘ (فوٹو: حشام خان)

اسلامیہ کالج کے طالب علم رب نواز نے اردونیوز کو بتایا کہ ’طلبہ کی فُولنگ کرنے کے بجائے ان کو ویلکم کہنا چاہیے۔ کلاس کے علاوہ ہاسٹل میں فُولنگ کی جاتی ہے لیکن اس بار اینٹی فُولنگ مہم کے تحت ہاسٹل میں بھی نئے آنے والوں کا اچھے طریقے سے استقبال کیا گیا ہے، شکایات ملنے پر فُولنگ کے واقعات کی روک تھام بھی کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کہ ’اینٹی فولنگ مہم میں فیکلٹی سٹاف نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے جس سے طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔‘
فُولنگ کے نام پر جسمانی تشدد ناقابل قبول 
سماجی کارکن سدرہ وحید ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’تعلیمی اداروں میں فُولنگ جونیئرز سے مذاق کا ایک انداز تھا مگر اب یہ ایک طرح کا جسمانی تشدد بن چکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کی قمیض اتار کر یا ان کے منہ سے نازیبا الفاظ ادا کروا کے ان کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ 
’یہ مذاق نہیں بلکہ ذہنی اور جسمانی ٹارچر ہے جسے روکنا ضروری ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس قیصف رشید نے تعلیمی اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ فُولنگ کلچر ختم کریں۔‘
سدرہ وحید ایڈووکیٹ کے مطابق فُولنگ کے باعث کچھ نئے طلبہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں جو ان کی تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔

ضلع سوات میں ڈگری کالج انتظامیہ نے فُولنگ کرنے والے طلبہ کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے (فوٹو: حشام خان)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کالج میں فُولنگ کلچر کی وجہ سے چند ایک بچے تعلیمی سفر کو خیرباد کہہ دیتے ہیں جو ایک بڑا نقصان ہے۔‘
فُولنگ کرنے والے سٹوڈنٹس کالج سے نکال دیے گئے
اُدھر ضلع سوات میں ڈگری کالج انتظامیہ نے فُولنگ کرنے والے طلبہ کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔
پرنسپل کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق فُولنگ کے الزام میں آٹھ طلبہ کو کالج سے نکال دیا گیا ہے جن میں سیکنڈ ایئر کے طالب علم بھی شامل ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق طلبہ کو فُولنگ کرنے سے منع کیا گیا تھا مگر اس کے باوجود فرسٹ ایئر کے طلبہ کو تنگ کیا گیا۔

 

شیئر: