Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں گندم کے ذخیرے ظاہر کرنے کا الٹی میٹم، ’کسانوں کے سر پر لٹکتی تلوار‘

پنجاب میں آئندہ سات ماہ کے لیے گندم کی مجموعی ضرورت 42 لاکھ ٹن ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے صوبے میں بڑھتے ہوئے گندم کے بحران کے پیش نظر ذخیرہ اندوزوں کو تین دن کی مہلت دی ہے۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز نے خبردار کیا ہے کہ جو افراد اپنے ذخائر کو ظاہر نہیں کریں گے ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
ان کے بقول گندم کو چھپانے سے نہ صرف مصنوعی قلت پیدا ہو رہی ہے بلکہ عام شہری کو بھی مہنگے آٹے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ الٹی میٹم ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب سرکاری دستاویزات کے مطابق پنجاب میں آئندہ سات ماہ کے لیے گندم کی مجموعی ضرورت 42 لاکھ ٹن ہے جبکہ دستیاب ذخائر صرف 29 لاکھ ٹن ہیں۔ یوں صوبے کو اس وقت 14 لاکھ ٹن کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق حکومت پنجاب کے پاس اس وقت محض 8 لاکھ 90 ہزار ٹن گندم کے ذخائر ہیں جبکہ باقی ذخائر نجی شعبے اور شناخت شدہ سٹاک پر مشتمل ہیں جن کی کل مقدار تقریباً 20 لاکھ ٹن بنتی ہے۔ محکمۂ خوراک نے اس قلت کو پورا کرنے کے لیے پاسکو سے 14 لاکھ ٹن گندم لینے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ آئندہ مہینوں میں ممکنہ بحران کو روکا جا سکے۔
حکومت کی پالیسی دستاویز میں یہ تجاویز بھی شامل ہیں کہ ہر ماہ ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں ایک لاکھ ٹن سرکاری گندم جاری کی جائے جبکہ خیبر پختونخوا کے لیے نجی ذخائر سے ہر ماہ ایک لاکھ ٹن گندم فراہم کرنے کا منصوبہ بھی زیرِغور ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مارکیٹ میں دستیابی یقینی بنانے کے لیے ذخیرہ اندوزی کے خلاف آپریشنز تیز کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

کسانوں کا موقف

کسان اس صورتحال کو بالکل مختلف زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ حافظ آباد کے ایک کسان  محمد اکرم (فرضی نام) نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ان کی مشکلات کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔
’ہم نے اس سال چاول کی فصل پر بھروسہ کیا تھا لیکن سیلاب اور بارشوں نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ ہمیں چاول سے جو امید تھی وہ پوری نہیں ہوئی اور پھر گندم ہی واحد سہارا بچی۔ لیکن اس وقت حکومت نے گندم خریدنے سے گریز کیا اور نرخ اتنے نیچے آ گئے کہ ہم اپنی محنت کے پیسے بھی پورے نہ کر سکتے۔ اس وقت حکومت نے کہا تھا کہ گندم کو اوپن مارکیٹ پر چھوڑ رہے ہیں۔ اب پھر کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گندم کو مارکیٹ میں لائے۔ کسان تو رُل گیا ہے۔‘

محمد اکرم نے کہا کہ ’ہم نے اس سال چاول کی فصل پر بھروسہ کیا تھا لیکن سیلاب اور بارشوں نے سب کچھ تباہ کر دیا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

محمد اکرم نے مزید کہا کہ چار ماہ تک انہوں نے اپنی گندم ذخیرہ کر کے رکھی تاکہ قیمتیں بہتر ہوں تو بیچ کر نقصان کم کیا جا سکے۔
’ہم نے یہ وقت بڑی مشکل سے گزارا ہے، قرض بھی لینا پڑا اور گھر کے اخراجات مشکل سے چلائے۔ اب جب حالات کچھ بہتر ہونے لگے ہیں اور گندم کی قیمت بڑھنے لگی ہے تو حکومت ہمیں مجبور کر رہی ہے کہ ابھی بیچ دو۔ یہ کسان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ پہلے ہمیں نقصان پہنچایا اور اب دوبارہ تلوار لٹکا دی ہے۔‘
اسی طرح شیخوپورہ کے کسان محمد سلیم (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں نے کسانوں کو دُگنا نقصان پہنچایا۔
’جب ہم نے کٹائی کی تو مارکیٹ میں ریٹ اتنے کم تھے کہ ہم نے سوچا یہ گندم ابھی بیچنے سے بہتر ہے کہ کچھ ماہ رکھ لیں۔ ہمارے علاقے میں بھی چاول کی فصل بارشوں سے برباد ہو گئی تھی، اس لیے گندم ہی بچی تھی۔ لیکن چار ماہ تک گندم نہ بیچنے کا نقصان بھی کم نہیں تھا، ہمیں ہر دن قرض کے سود کا سامنا تھا۔ ہم نے یہ سوچ کر برداشت کیا کہ آگے جا کر ریٹ اوپر جائے گا اور ہم کچھ سنبھل جائیں گے۔ لیکن اب حکومت ہم پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ سب کچھ مارکیٹ میں لاؤ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘

اگر کسان گندم نہیں ڈکلئیر نہیں کرتے تو حکومت پلان بی کے لیے پاسکو سے گندم خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

کسانوں کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران کی جڑ خود حکومت کی پالیسیوں میں ہے۔ ان کے مطابق اگر پنجاب حکومت وقت پر گندم خرید لیتی اور کسانوں کو بہتر قیمت مل جاتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ کسان یہ بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ حکومت نے اپنی کوتاہیوں کا بوجھ اب کسانوں پر ڈال دیا ہے اور کسانوں کی محنت کو بار بار نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
پنجاب میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے ذمہ دار محکمے کی سربراہ سلمیٰ بٹ کہتی ہیں کہ ’ذخیرہ اندوزی کسان نہیں کرتے بلکہ وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے کسانوں سے سستے داموں میں گندم خریدی اور ذخیرہ کیا۔ بہت کم کسان ہیں جنہوں نے خود گندم رکھی۔ ہمارے پاس معلومات بھی ہیں اور ڈیٹا بھی۔ اس لیے تین دن کا الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ گندم ڈیکلئیر کریں۔ بہت بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں ںے گندم خرید کر سٹاک کی ہوئی ہے جو کہ غیرقانونی ہے۔ اگر کسی چھوٹے کسان نے اپنی گندم رکھی ہوئی ہے تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا، ہم صرف شفافیت کی بات کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اندازے کے مطابق 12 سے 14 لاکھ ٹن گندم ذخیرہ کی گئی ہے جو کہ صوبے کی ضرورت کے لیے کافی ہے۔ ہم تین دن گزرنے کے بعد کریک ڈاؤن بھی کریں گے اور گندم  مارکیٹ میں بھی لے کر آئیں گے۔‘

بحران کے شدت اختیار کرنے کی صورت میں عام شہری ایک بار پھر مہنگے آٹے کے بوجھ تلے دب سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اگر کسان گندم نہیں ڈکلیئر نہیں کرتے تو حکومت پلان بی کے لیے پاسکو سے گندم خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر پاسکو سے بروقت گندم نہ ملی تو پنجاب میں آٹے کی قیمتیں بڑھنے کا امکان ہے اور اس کے اثرات پورے ملک میں محسوس کیے جائیں گے۔ پنجاب میں چونکہ گندم کی طلب سب سے زیادہ ہے، اس لیے یہاں کی کمی ملک بھر میں غذائی عدم تحفظ کو مزید سنگین کر سکتی ہے۔
موجودہ حالات میں کسان اور حکومت دونوں ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ حکومت کے نزدیک کسان ذخیرہ اندوزی کر کے بحران بڑھا رہے ہیں جبکہ کسانوں کے نزدیک حکومت کی ناقص حکمتِ عملی اور تاخیر نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ بحران کے شدت اختیار کرنے کی صورت میں عام شہری ایک بار پھر مہنگے آٹے کے بوجھ تلے دب سکتا ہے۔

 

شیئر: