دنیا بھر میں گاڑیوں کی تیاری کے دوران ایسے درجنوں حفاظتی تقاضے لازمی قرار دیے جاتے ہیں جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں نہ صرف ڈرائیور اور مسافروں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جا سکے بلکہ پیدل چلنے والوں کو بھی کم سے کم نقصان پہنچے۔
پاکستان میں اب تک صرف بنیادی نوعیت کے چند حفاظتی تقاضے لاگو تھے، جن میں سیٹ بیلٹ، انڈیکیٹرز یا بریک لائٹس جیسی سادہ خصوصیات شامل تھیں جبکہ ایئر بیگز اور اس طرح کے دیگر تقاضوں پر قوانین کے باوجود عمل درآمد واجبی سا تھا۔
اب حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کے لیے 57 انٹرنیشنل سیفٹی سٹینڈرڈز کا نفاذ کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں 50 فیصد کمی، وجوہات کیا ہیں؟Node ID: 708801
-
گاڑیوں کے سالانہ انسپیکشن سینٹرز کے لیے نئی شرائط کیا ہیں؟Node ID: 894153
اس کے بعد اُمید کی جا رہی ہے کہ صورتِ حال میں بہتری آئے گی کیونکہ یہ 57 معیارات دنیا بھر میں استعمال ہونے والے جامع نظام کا حصہ ہیں۔
یہ سٹینڈرڈز بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی بنیادی شرائط کے طور پر لاگو کیے جا رہے ہیں۔
سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق ’ان سٹینڈرڈز کا سب سے بنیادی مقصد یہ ہے کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں انسانی جان کا زیادہ سے زیادہ تحفظ کیا جا سکے۔‘
یہ معیارات صرف ایئر بیگز یا سیٹ بیلٹس تک محدود نہیں بلکہ اِن میں گاڑی کے پورے ڈھانچے سے لے کر اس کے چھوٹے چھوٹے پُرزوں تک ہر چیز کا معیار مقرر کیا گیا ہے۔
ان پر عمل درآمد کا آغاز رواں برس اکتوبر سے کیا جائے گا۔
عالمی معیارات کو دیکھا جائے تو ان کا پہلا بڑا حصہ گاڑی کی ساخت اور حادثے کے وقت اس کے ردِعمل سے متعلق ہے۔
کسی بھی تصادم کی صورت میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ گاڑی کا ڈھانچہ کسی بھی ٹکر کا جھٹکا کس حد تک برداشت کر سکتا ہے اور اس دوران اندر بیٹھے افراد کو کتنا تحفظ حاصل رہتا ہے۔
سامنے سے یا پہلو سے ہونے والی ٹکر کی جانچ، چھت کے دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت اور پیچھے سے ٹکر لگنے پر فیول ٹینک وغیرہ کی حفاظت جیسے ٹیسٹ اِن ہی اصولوں کا حصہ ہیں۔

ماہرین کے مطابق ترقی یافتہ دنیا میں ان تقاضوں کے بغیر کسی بھی گاڑی کو سڑک پر چلنے کی اجازت نہیں ملتی۔
پاکستان میں اِن کا نفاذ اس لیے اہم ہے کہ یہاں اب تک بننے والی کئی گاڑیاں ایسے کسی بھی عالمی معیار پر پورا نہیں اُترتیں اور حادثات میں جان لیوا نقصانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
دوسرا بڑا پہلو مسافروں کے تحفظ سے متعلق ہے۔ یہ سٹینڈرڈز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ گاڑی کے اندر بیٹھنے والے ہر فرد کو حادثے کی صورت میں محفوظ رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال ہو۔
سیٹ بیلٹس کا معیار، ایئر بیگز کی موجودگی اور اُن کی دُرست فعالیت، بچوں کے لیے حفاظتی نشستوں کا نظام اور انہیں گاڑی میں لگانے کے لیے معیاری پوائنٹس، یہ سب اصول اِسی زُمرے میں آتے ہیں۔
سیفٹی ماہر احسان قریشی کے مطابق ’آج دنیا بھر میں یہ تصور قائم ہو چکا ہے کہ گاڑی میں بچوں کے لیے علیحدہ حفاظتی نشست نہ ہو تو یہ ایک بنیادی کوتاہی ہے۔ پاکستان میں اِن معیارات کے نفاذ کا مطلب یہ ہوگا کہ اب مقامی گاڑیاں بھی اِن حفاظتی تقاضوں کو پورا کرنے پر مجبور ہوں گی۔‘

وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق اسی طرح پیدل چلنے والوں کے تحفظ کو بھی ان سٹینڈرڈز میں نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔
یورپ اور جاپان میں برسوں پہلے یہ شرط عائد کر دی گئی تھی کہ گاڑی کے اگلے حصے کو اس انداز میں ڈیزائن کیا جائے کہ اگر کوئی شخص حادثاتی طور پر ٹکرا جائے تو اس کے جسم کو کم سے کم نقصان پہنچے۔
بونٹ اور بمپر کی اُونچائی، اُن کا زاویہ اور ڈیزائن سب اِن ہی تقاضوں کے تحت جانچے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جب یہ اصول لاگو ہوں گے تو مقامی مینوفیکچررز کو بھی اپنی گاڑیوں کے ڈیزائن تبدیل کرنا پڑیں گے تاکہ وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیار پر پورا اُتر سکیں۔
عام طور پر یہ دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ سڑک پر چلتی گاڑی اچانک بریک لگنے یا اوورسپیڈنگ سے اپنا توازن کھو بیٹھی اور اُلٹ گئی، اس حوالے سے بھی گاڑیوں کے اندر جدید الیکٹرانک نظام نصب کرنے اور اسے عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے کو اِن بنیادی سٹینڈرڈز کا حصہ بنایا گیا ہے۔
مثال کے طور پر الیکٹرانک سٹیبلٹی کنٹرول ایک ایسا نظام ہے جو گاڑی کو پھسلنے یا قابو سے باہر ہونے سے بچاتا ہے، اسی طرح اینٹی لاک بریکنگ سسٹم (اے بی ایس) اور بریک اسسٹ جیسے فیچرز بھی حادثات کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں یہ سسٹمز بنیادی حفاظتی سہولت کے طور پر سمجھے جاتے ہیں اور اب پاکستان میں بھی یہ تقاضے لازمی ہو جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ ٹائر پریشر مانیٹرنگ جیسے فیچرز بھی شامل ہیں تاکہ ڈرائیور بروقت جان سکے کہ ٹائر میں ہوا کی کمی کسی حادثے کا سبب تو نہیں بن سکتی۔
ماحولیاتی اور میٹیریئل سیفٹی بھی ان 57 سٹینڈرڈز کا ایک اہم حصہ ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے گاڑی کے اندر استعمال ہونے والے پُرزوں کو ایسے میٹیریلز کو اس طرح بنایا جاتا ہے کہ وہ آسانی سے آگ نہ پکڑ سکیں۔
اسی طرح الیکٹرک گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر بیٹریوں کے سیفٹی ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیے گئے ہیں تاکہ شارٹ سرکٹ یا حادثے کی صُورت میں بیٹری دھماکے یا آگ کا باعث نہ بنے۔
یہ تقاضے خاص طور پر اس لیے اہم ہیں کیونکہ پاکستان میں بھی اب برقی گاڑیوں کا استعمال بڑھ رہا ہے اور اگر یہ معیارات نہ اپنائے گئے تو خطرات کئی گنا بڑھ سکتے ہیں۔
گاڑیوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھی آئی ایس او 17025 جیسے اُصول لاگو کیے جائیں گے تاکہ جانچ کے نتائج قابلِ اعتماد ہوں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف گاڑی کے ڈیزائن اور فیچرز ہی نہیں بلکہ پوری مینوفیکچرنگ چین اب عالمی سطح پر جانچ پڑتال کے عمل سے گزرے گی۔
گاڑیوں کا کاروبار کرنے والوں کی نظر میں پاکستان کے تناظر میں یہ تبدیلی بہت بڑی ہے۔ اب تک یہاں صرف 17 کے قریب بنیادی حفاظتی تقاضے لاگو تھے، لیکن ان معیارات کے نفاذ کے بعد مقامی انڈسٹری کو اپنی مصنوعات میں بڑی تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔
اس سے ایک طرف صارفین کو زیادہ محفوظ گاڑیاں ملیں گی تو دوسری جانب پاکستان کی انڈسٹری عالمی سطح پر مسابقتی ہو سکے گی۔
اگر اس پر عمل درآمد ہو جاتا ہے یہ نہ صرف مقامی مارکیٹ بلکہ ایکسپورٹ کے امکانات کے لیے بھی خوش آئند پیش رفت ہے۔
اس فیصلے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک انتظامی حکم نامہ نہیں بلکہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔
ان کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کیے گئے اس وعدے نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ان تقاضوں کو عملی جامہ پہنائے، لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ عام صارف کو ہوگا جو اب تک غیر محفوظ گاڑیوں پر انحصار کر رہا تھا۔

دوسری جانب کچھ ماہرین نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ مقامی مینوفیکچررز پر فوری دباؤ بڑھے گا اور ممکن ہے کہ ابتدائی طور پر گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو۔
تاہم ان کے نزدیک مستقبل میں یہ فیصلے صنعت کے لیے ہی فائدہ مند ثابت ہوں گے کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستان کے اندر ایک محفوظ مارکیٹ تشکیل پائے گی بلکہ برآمدی مواقع بھی بڑھیں گے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ ’موٹر وہیکل انڈسٹری ڈیویلپمنٹ ایکٹ 2025 دراصل ایک ریگولیٹری چھتری ہے جو مقامی آٹو سیکٹر کو صرف صارفین کی توقعات ہی نہیں بلکہ عالمی تجارتی تقاضوں کے مطابق بھی ڈھال سکتی ہے بشرطیکہ ماضی کی طرح قوانین فائلوں تک ہی محدود نہ رہ جائیں۔‘