برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سبھی نے اتوار کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے، جبکہ دیگر ممالک کی طرف سے اس ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس کی پیروی کرنے کی توقع ہے۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا فلسطینیوں اور اسرائیل کے لیے کیا مطلب ہوگا؟
فلسطینی ریاست کی موجودہ کیا حیثیت ہے؟
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے 1988 میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان کیا تھا اور زیادہ تر جنوبی حصے نے اسے جلد ہی تسلیم کر لیا تھا۔ آج اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے تقریباً 150 نے ایسا ہی کیا ہے۔
مزید پڑھیں
اسرائیل کا اہم اتحادی امریکہ طویل عرصے سے کہہ رہا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے مقصد کی حمایت کرتا ہے لیکن اگر فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل پر رضامندی ہو جائے۔
تاہم، 2014 کے بعد سے ایسے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اب کہا ہے کہ کبھی بھی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی۔
ریاست فلسطین کی نمائندگی کرنے والے وفد کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل ہے، لیکن ووٹنگ کا کوئی حق نہیں۔ چاہے کتنے ہی ممالک فلسطین کی آزادی کو تسلیم کریں، اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے سلامتی کونسل کی منظوری درکار ہوگی جہاں واشنگٹن کو ویٹو حاصل ہے۔
دنیا بھر میں فلسطینی سفارتی مشن فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول ہیں جسے بین الاقوامی سطح پر فلسطینی عوام کی نمائندگی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
صدر محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کے تحت اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود خود مختاری کا استعمال کرتی ہے۔ یہ فلسطینی پاسپورٹ جاری کرتی ہے اور فلسطینی صحت اور تعلیم کا نظام چلاتی ہے۔
غزہ کی پٹی 2007 سے حماس شدت پسند گروپ کے زیر انتظام ہے جب اس نے ایک مختصر خانہ جنگی کے بعد عباس کی فتح پارٹی کو نکال باہر کیا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کے بعد سے امریکہ کے علاوہ بیشتر بڑی طاقتوں کا تل ابیب میں سفارتی مشن ہے کیونکہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کرتے۔
تاہم، مغربی کنارے کے رملا یا مشرقی یروشلم میں تقریباً 40 ممالک کے قونصلر دفاتر ہیں۔ یہ ایک ایسا علاقہ جس کا اسرائیل کے ساتھ الحاق کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور جسے فلسطینی اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔
ان میں چین، روس، جاپان، جرمنی، کینیڈا، ڈنمارک، مصر، اردن، تیونس اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے ممالک نے یہ نہیں بتایا کہ اس سے ان کی سفارتی نمائندگی میں کیا فرق پڑے گا۔
فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مقصد کیا ہے؟
برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے رواں ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قبل فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ فرانس اور بیلجیئم سمیت دیگر ممالک نے کہا کہ وہ اس کی پیروی کریں گے۔
برطانیہ جیسے ممالک کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مقصد اسرائیل پر غزہ پر تباہ کن حملے بند کرنے، مقبوضہ مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کو روکنے اور فلسطینیوں کے ساتھ امن عمل کی بحالی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں، جو تسلیم کرنے کی توثیق کرنے والی ایک بڑی مغربی طاقت کے پہلے رہنما ہیں، نے کہا کہ یہ اقدام فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اصلاحات نافذ کرنے کے عزم کے ساتھ ہوگا جس سے فلسطینی گورننس میں بہتری آئے گی اور اسے غزہ کی جنگ کے بعد کی انتظامیہ کے لیے ایک زیادہ قابل اعتماد شراکت دار بنایا جائے گا۔
عملی طور پر تسلیم کرنے کا کیا مطلب ہے؟
اقوام متحدہ میں مکمل نشست یا اپنی سرحدوں کے کنٹرول کے بغیرفلسطینی اتھارٹی کے پاس دو طرفہ تعلقات کو چلانے کی محدود صلاحیت ہے۔
اسرائیل سامان، سرمایہ کاری اور تعلیمی یا ثقافتی تبادلے تک رسائی کو محدود کرتا ہے۔ کوئی فلسطینی ہوائی اڈے نہیں ہیں۔ خشکی سے گھرے مغربی کنارے تک صرف اسرائیل کے ذریعے یا اردن کے ساتھ اسرائیل کے زیر کنٹرول سرحد کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے اور اسرائیل غزہ کی پٹی تک تمام رسائی کو کنٹرول کرتا ہے۔
پھر بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے ممالک اور خود فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ یہ ایک خالی اشارہ سے زیادہ ہوگا۔
برطانیہ میں فلسطینی مشن کے سربراہ حسام زوملوٹ نے کہا کہ یہ اداروں کے درمیان برابری کی بنیاد پر شراکت داری کا باعث بن سکتا ہے۔
یروشلم میں ایک سابق برطانوی سفارت کار ونسنٹ فین نے کہا کہ یہ ممالک کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کے پہلوؤں پر نظرثانی کرنے پر بھی مجبور کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے معاملے میں اس کے نتیجے میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں سے آنے والی مصنوعات پر پابندی لگ سکتی ہے، اگرچہ اسرائیلی معیشت پر اس کا عملی اثر بہت کم ہوگا۔
اسرائیل اور امریکہ نے کیا رد عمل ظاہر کیا ہے؟
اسرائیل، جسے غزہ جنگ میں اپنے طرز عمل پر عالمی سطح پر غم و غصہ کا سامنا ہے، کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے حماس کو اسرائیل پر حملوں کا صلہ ملتا ہے جنہوں نے اکتوبر 2023 میں جنگ کو ہوا دی تھی۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ ’دریائے اردن کے مغرب میں فلسطینی ریاست قائم نہیں کی جائے گی۔‘
امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کی طرف سے تسلیم شدہ اقدام کی مخالفت کرتا ہے۔ اس نے فلسطینی حکام پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں محمودعباس اور فلسطینی اتھارٹی کی دیگر شخصیات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت سے روکنا اور ویزوں کو منسوخ کرنا شامل ہے۔