بم دھماکوں کی آوازوں سے اس نیم تاریک زیرزمین کمرے کی دیواریں لرزتی ہیں جہاں ایک فلسطینی خاتون نور ابو حصیرہ اپنی تین ننھی بیٹیوں کے ساتھ پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اس خاندان کے افراد ایک چھوٹی سی اونچی کھڑکی سے زیادہ کچھ نہیں دیکھ سکتے لیکن ڈرونز کی آوازوں اور فضائی حملوں کی گونج سے انہیں یہی اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیلی افواج قریب آ رہی ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق نور ابو حصیرہ اسرائیل کی جانب سے شہر سے نکلنے کی وارننگز کے باوجود پیچھے رہ گئی ہیں۔ ان کی ٹانگوں میں شدید چوٹیں ہیں جو جنگ کے آغاز میں ایک فضائی حملے میں ان کے گھر کی تباہی کے باعث ہوئیں۔
مزید پڑھیں
-
74سالہ فلسطینی خاتون نے پی ایچ ڈی کرلیNode ID: 151861
-
امریکہ غزہ جنگ کو ابھی اسی وقت ختم کر سکتا ہے، صدر ٹرمپNode ID: 894970
غزہ کے تباہ حال علاقے میں بہت سے افراد کی طرح وہ دوہزار ڈالر کے برابر رقم کا انتظام نہیں کر سکیں جو ان کے بقول جنوبی غزہ منتقل ہونے اور بے گھر افراد کے کیمپ میں خیمہ لگانے کے لیے درکار ہیں۔
اگرچہ غزہ شہر کے زیادہ تر فلسطینی 23 ماہ طویل جنگ کے دوران کسی نہ کسی وقت جنوب کی طرف فرار ہو چکے ہیں، لیکن نور ابو حصیرہ زیادہ تر بستر پر ہی رہیں۔ہاں، انہیں اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے اسی شہر میں 11 مرتبہ اپنی جگہ بدلنا پڑی۔
نور ابو حصیرہ کے شوہر اسرائیلی جیل میں ہیں اور وہ اپنی چھوٹی بیٹیوں جوری، ماریا اور مہا کے ساتھ ان سینکڑوں ہزاروں فلسطینیوں میں شامل ہیں جو اب بھی غزہ شہر میں موجود ہیں۔
انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ’یوں لگتا ہے جیسے ہم صرف مرنے کا انتظار کر رہے ہیں اب مجھے زیادہ پروا نہیں رہی۔‘
دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی کارروائی کا مقصد حماس کو ختم کرنا اور ان یرغمالیوں کو آزاد کرانا ہے جنہیں جنگ کے آغاز میں اغواء کیا گیا تھا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان سے بچانے کے اقدامات کر رہا ہے۔
اگر نور ابو حصیرہ کا خاندان کسی طرح جنوب پہنچ جائے تو بھی ان کی مشکلات ختم نہیں ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے اپنی بیٹیوں کے ساتھ خیمے میں رہنے سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہم سردیوں میں مارے جائیں گے۔ مجھے کیڑوں سے ڈر لگتا ہے۔ ہم پانی کیسے حاصل کریں گے؟‘
ایک فضائی حملے نے ان کا گھر تباہ کر دیا تھا۔

جنگ سے آٹھ ماہ قبل نور ابو حصیرہ اور ان کا خاندان غزہ شہر کے ایک اپارٹمنٹ میں منتقل ہوا۔ وہ طبی لیب ٹیکنیشن کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ان کے شوہر رائد ایک میڈیا ادارے کے صحافی تھے جس پر حماس سے روابط کا شبہ تھا۔
نور ابو حصیرہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر حماس کے رکن نہیں تھے۔
ان کی سب سے بڑی بیٹی جوری پرائمری سکول میں تھی۔ ماریا ابھی کنڈرگارٹن شروع کرنے والی تھی۔ مہا ابھی شیر خوار تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے 10 برس کام کیا اور بچت کی تاکہ ایک آرام دہ، خوبصورت گھر بنا سکیں، ہمارا خوابوں کا گھر۔۔۔ اب وہ سب ختم ہو گیا ہے۔‘
جب سات اکتوبر 2023 کو حماس کے زیر قیادت جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملہ کر کے 1200 افراد کو قتل کیا اور 251 کو اغواء کیا تو اسرائیل نے غزہ پر شدید فضائی حملے اور زمینی کارروائی شروع کی۔

اس کے بعد دسمبر میں اس عمارت پر حملہ ہوا جہاں نور ابو حصیرہ کا اپارٹمنٹ تھا۔
دھماکے سے ایک کنکریٹ کا ستون گر گیا جس کے بعد نور ابو حصیرہ ملبے تلے دب گئیں، ان کے کندھے، کمر اور ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور وہ کوما میں چلی گئیں۔ ان کی بیٹیاں بھی ملبے تلے دب گئیں لیکن سب زندہ بچ گئیں۔
اس کے بعد جب نور ابو حصیرہ کو ہوش آیا تو وہ شفا ہسپتال میں تھیں۔ ان کی بیٹی ماریا ان کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی جس کے سر میں فریکچر تھا۔
اسرائیلی افواج نے چند ہفتے قبل اس ہسپتال پر چھاپہ مارا تھا۔ ان کا الزام تھا کہ حماس کے ارکان وہاں چھپے ہوئے ہیں۔
ان کے شوہر نے باقی دو بیٹیوں کو ایک چچا کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ ہسپتال میں ماں اور بیٹی کی دیکھ بھال کر سکیں۔
نور ابو حصیرہ نے بتایا کہ ’وہ (شوہر) میرے ڈائپرز، میرے کپڑے بدلتے تھے۔ میں تین ماہ تک اپنی پیٹھ کے بل لیٹی رہی اور وہ میری دیکھ بھال کرتے رہے، وہ میرے بال سنوارتے اور مجھے نہلاتے۔‘
مارچ 2024 میں اسرائیلی فوج نے دوبارہ ہسپتال پر چھاپہ مارا درجنوں افراد کو گرفتار کیا جن میں ابو حصیرہ کے شوہر بھی شامل تھے۔ وہ اب ان سینکڑوں فلسطینیوں میں شامل ہیں جنہیں اسرائیل نے جنگ کے دوران گرفتار کیا اور جن کے بارے میں کوئی معلومات یا قانونی حیثیت معلوم نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب انہوں نے مہا کے والد کو لے جایا وہ صرف ایک برس کی تھی۔ اس نے آج تک ’ابو‘ کا لفظ نہیں کہا۔‘

انہیں اپنی بیٹیوں کی موت کا خوف تھا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے شفا ہسپتال میں دو ہفتوں کی لڑائی کے دوران تقریباً حماس کے 200 جنگجوؤں کو ہلاک کیا۔
عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ محاصرے کے دوران 21 مریض ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیل نے شہریوں کو نقصان پہنچانے کی تردید کی۔
نور ابو حصیرہ کو اسرائیلی فوجیوں نے ہسپتال چھوڑنے کو کہا تو وہ ایک بیگ لے کر وہاں سے نکلیں۔ انہوں نے اپنا وہیل چیئر، زیادہ تر کپڑے اور خوراک پیچھے چھوڑ دی۔ باقی سال انہوں نے غزہ شہر میں اسرائیلی چھاپوں کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو کر گزارا۔
انہوں نے کہا کہ ’سب سے مشکل بات دوسروں کے گھروں میں رہنا ہے۔۔۔ خاص طور پر چھوٹے بچوں کے ساتھ۔ ہر چیز مہنگی ہے، میرے پاس کپڑے یا سامان نہیں تھا۔‘
خزاں 2024 میں اسرائیل نے شمالی غزہ اور غزہ شہر کو بڑی حد تک بند کر دیا، بڑے زمینی آپریشن شروع کیے اور انسانی امداد کو سختی سے محدود کر دیا۔ صاف پانی ملنا مشکل ہو گیا۔ وہ صرف روٹی کھاتے تھے۔ ان کی بڑی بیٹی جوری غذائی قلت کا شکار ہو کر بیمار ہو گئی۔
’مجھے کمزوری، تنہائی، بے بسی محسوس ہوئی۔ مجھے خوف تھا کہ میری بیٹیاں مر جائیں گی اور میں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکوں گی۔‘
ایک پڑوسی نے رضاکارانہ طور پر جوری کو غذائی قلت کے پروگرام میں لے جایا جہاں وہ صحت یاب ہونے لگی۔
