فلسطین کی حمایت کی تاکید، اقوام متحدہ میں وزیر خارجہ کا خطاب
اتوار 28 ستمبر 2025 10:00
’اب وقت آچکا ہے کہ فلسطینی مسئلے کا منصفانہ اور دیرپا حل تلاش کیا جائے‘ ( فوٹو: سبق)
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس میں سعودی عرب کی نمائندگی کرتے ہوئے خطاب کیا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ’سعودی عرب کو فخر ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کابانی رکن ہے اور وہ ميثاقِ اقوامِ متحدہ کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ بین الاقوامی قانون کے احترام کو مستحکم کیا جا سکے اور عالمی امن و سلامتی کو فروغ دیا جا سکے‘۔
انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ ’سعودی عرب انسانی پکار پر لبیک کہنے اور مدد و عطا کا ہاتھ بڑھانے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے‘۔
’سعودی عرب نے اب تک 141 ارب امریکی ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کرچکا ہے جس سے 174 ممالک نے استفادہ کیا ہے‘۔
انہوں نے سعودی عرب کے فلسطینی مسئلے پر مستقل اور واضح موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وقت آچکا ہے کہ اس مسئلے کا منصفانہ اور دیرپا حل تلاش کیا جائے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی قوانین اور شرعی جواز سے ہٹ کر اس مسئلے کو برتنا ہی تشدد کے تسلسل اور مصائب کے بڑھنے کا باعث بنا ہے۔
انہوں نے کہا ہے ’بین الاقوامی برادری کی اسرائیلی جارحیت اور خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکامی، نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر امن و استحکام کو متزلزل کرے گی اور سنگین نتائج کی راہ ہموار کرے گی جن میں جنگی جرائم اور نسل کشی میں اضافہ بھی شامل ہے‘۔

انہوں نے فلسطینی مسئلے کے حل کے لئے سعودی عرب کی مسلسل کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’سعودی عرب نے ناروے اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر ’بین الاقوامی اتحاد برائے حلِ دو ریاستی‘ کے آغاز میں پیش قدمی کی اور فرانس کے ساتھ مل کر فلسطینی مسئلے کے پر امن حل اور دو ریاستی حل پر بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت کی‘۔
’یہ ایک واضح راستہ ہے جو قبضے اور تنازع کے خاتمے کی طرف لے جاتا ہے‘۔
انہوں نے اُن ممالک کی تعریف کی جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا اور فلسطینی اتھارٹی کی اہم اصلاحات کی کوششوں کو سراہا جو عالمی برادری سے مزید تعاون اور مدد کی مستحق ہیں۔
اپنے خطاب میں وزیر خارجہ نے ایٹمی پھیلاؤ اور خطے میں اسلحے کی دوڑ روکنے کے نظام کی پابندی پر زور دیا اور بحیرہ احمر، خلیجِ عدن اور آبی گزرگاہوں میں سلامتی، جہاز رانی اور آزادی کے تحفظ کی اہمیت اجاگر کی ہے۔

انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے ذرائع کو ختم کرنے پر بھی زور دیا، ساتھ ہی مصنوعی ذہانت کی فوجی استعمالات اور خود کار ہتھیاروں کے خطرات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان کے ضابطے کے لیے بین الاقوامی قوانین بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
انہوں نے شام میں استحکام کے لیے اٹھائے گئے مثبت اقدامات کی تعریف کی ہے اور یمن کی سلامتی و استحکام کی بحالی پر توجہ دلائی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب یمنی معیشت کی مدد اور انسانی مصائب کو کم کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور وہ یمن کے لیے سب سے بڑا عطیہ دہندہ ملک ہے‘۔

اسی طرح شہزادہ فیصل بن فرحان نے سوڈان کے استحکام، وحدت اور سلامتی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’جدہ پلیٹ فارم‘ کے ذریعے مکالمے کا تسلسل ضروری ہے اور سعودی عرب کسی بھی ایسے اقدام کو مسترد کرتا ہے جو ریاستی اداروں کے دائرے سے باہر ہو اور سوڈان کی وحدت یا عوامی مرضی کو نقصان پہنچائے‘۔
انہوں نے لیبیا کے مسئلے پر ’لیبیائی - لیبیائی حل‘ کی حمایت پر بھی زور دیا تاکہ اس کی وحدت محفوظ رہے اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو تقویت ملے۔
خطاب کے اختتام پر وزیرِ خارجہ نے سعودی عرب کے طویل المدتی ترقیاتی سفر کا ذکر کیا جو وژن 2030 کے تحت جاری ہے۔
انہوں نے اس دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کا تذکرہ کیا جیسے کہ نوجوانوں اور خواتین کو بااختیار بنانا، رواداری کی اقدار کو فروغ دینا، عالمی تعاون و رابطے کو وسعت دینا، بے روزگاری میں کمی اور خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت میں اضافہ شامل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے، صحرا زائی اور خشک سالی کے خلاف اقدامات جیسے ’سعودی گرین‘ اور ’مڈل ایسٹ گرین‘ اقدامات اور ’عالمی ادارہ برائے پانی‘ کے قیام (جس کا صدر دفتر ریاض میں ہوگا) کا بھی ذکر کیا جو پائیدار ترقی اور ماحول کے درمیان توازن کے لیے مملکت کے عزم کی عکاسی کرتا ہے اور عالمی ماحولیاتی نظام کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گا۔