Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور مسلم ممالک کی ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی حمایت

سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے صدر ٹرمپ کے پیش کردہ ’غزہ میں امن اور جنگ کے خاتمے‘ کے منصوبے کی حمایت کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس منصوبے کا اعلان اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں پیر کو کیا تھا۔
عرب اور دیگر مسلم ممالک کے وزرا کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے جس میں صدر ٹرمپ کی ’مخلصانہ کوششوں‘ کا خیرمقدم کیا گیا ہے اور خطے میں ان کی ’امن کا راستہ تلاش‘ کرنے کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی ایس پی اے کی رپورٹ کے مطابق وزرائے خارجہ نے قیام امن کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے متذکرہ تجویز کو ایک تصفیے کی طرف بڑھنے کا ایک جامع موقع بھی قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ منصوبہ استحکام کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔‘
وائٹ ہاؤس کی جانب سے 20 نکات پر مشتمل دستاویز میں جنگ بندی کا معاہدہ، حماس کے پاس موجود یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل کی قید سے فلسطینیوں کی رہائی، غزہ سے فوج کے انخلا، حماس کو غیر مسلح کیے جانے اور بین الاقوامی برادری کی مدد سے غزہ کی دوبارہ آباد کاری کے پوائنٹس بھی شامل ہیں۔
دیگر نکات کے مطابق اقوام متحدہ اور ریڈ کریسنٹ سمیت دیگر غیرجانبدار امدادی اداروں کو غزہ میں بڑے پیمانے پر امدادی سامان لے جانے کی اجازت دی جائے گی اور فلسطینیوں کو جبری طور پر علاقے سے نہیں نکالا جائے گا۔
غزہ میں سکیورٹی کی نگرانی کے لیے امریکہ ایک عبوری اتھارٹی کے قیام کے لیے عرب اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

غزہ کو تقریباً دو سال سے مسلسل اسرائیلی حملوں کا سامنا ہے (ٖفوٹو: اے ایف پی)

اس میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کا ابتدائی طور پر محدود کردار ہو گا اس کا کردار بڑھانے سے قبل اصلاحات کی جائیں گی، جس کا مقصد یہ ہو گا کہ وہ اتھارٹی بالآخر نظام چلانے کے قابل ہو جائے۔
اگرچہ اس تجویز میں ’فلسطین کی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک قابل اعتماد راستے‘ کے امکان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاہم اس کی تفصیلات مبہم ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نے بھی صدر ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے تاہم کچھ چیزیں ان کی حکومت کی جانب سے پہلے ظاہر کیے گئے خیالات سے متصادم نظر آ رہی ہیں، خصوصاً یہ امکان جو فلسطینی اتھارٹی کے بالآخر غزہ کا نظام سنبھالنے سے متعلق ہے۔
اس منصوبے کے لیے حماس کی جانب سے معاہدہ ہونا بھی ضروری ہے، جس کو منصوبے کے مطابق رضاکارانہ طور پر غیر مسلح ہونا اور ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے حماس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے ڈیل کو مسترد کیا تو وہ اسرائیلی حکام کو جنگ کے لیے مزید فری ہینڈ بھی دے سکتے ہیں۔

جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ اور مسلم رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عرب اور مسلم ممالک کی جانب سے صدر ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کے بیان میں ان کے اس وعدے کا بھی خیرمقدم کیا ہے جس میں انہوں نے مغربی کنارے کے الحاق کی کسی بھی کوشش کو روکنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
وزرا کی جانب سے کچھ ایسے وعدوں کا خاکہ بھی پیش کیا ہے جو ان کے خیال میں دیرپا امن کے لیے ضروری ہیں، جن میں کافی پہلے سے ہی ٹرمپ کے امن منصوبے میں موجود ہیں۔
ان میں غزہ میں امدادی سامان کی بلا روک ٹوک فراہمی، فلسطینیوں کو جبری نکالنے کی روک تھام، یرغمالیوں کی رہائی، تمام فریقوں کے لیے سلامتی کے نظام کی تشکیل اور علاقے سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی ضمانت کے نکات شامل ہیں۔
وزرا کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو اور ایسے دو ریاستی حل کی طرف پیشرفت ’علاقائی استحکام اور سلامتی کے حصول کی بنیاد‘ ہے جس میں غزہ اور مغربی کنارا ایک مکمل خودمختار فلسطینی ریاست کا حصہ ہوں۔

شیئر: