Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خلیجی ممالک کی مشترکہ سلامتی خطرے میں ہے: شہزادہ ترکی الفیصل کا انتباہ

اسرائیل نے نو ستمبر کو دوحہ میں مذاکرات کے لیے موجود حماس کے رہنماؤں کو حملے کا نشانہ بنایا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ اور برطانیہ میں سعودی عرب کے سابق سفیر شہزادہ ترکی الفیصل نے خبردار کیا ہے کہ قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کے بعد سے خلیجی ریاستوں کی سلامتی کو ایک ’مسترد شدہ ریاست‘ کی جانب سے خطرہ درپیش ہے۔
عرب نیوز کے مطابق شہزادہ ترکی الفیصل نے نو ستمبر کو اسرائیل کی جانب سے دوحہ میں مذاکرات کے لیے موجود حماس کے رہنماؤں پر کیے گئے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی اور اس کے مکمل خاتمے کے معاہدے پر بات چیت کے لیے جمع ہوئے تھے۔
 انہوں نے ایسے موقع پر اسرائیلی حملے کو ’غداری‘ قرار دیتے ہوئے خلیجی ممالک سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کے بعد وہ اپنی سلامتی کے حوالے سے اپنی اپروچ پر نظرثانی کریں۔
اتوار کو ریاض کے ڈپلومیٹیک کوارٹر کے کلچرل پیلیس میں عرب نیوز کی گولڈن جوبلی کے موقع پر ہونے والی تقریب ڈین آف ایمبیسڈرز گالا ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے شہزادہ ترکی الفیصل کا مزید کہنا تھا کہ قطر کی خودمختاری پر حملہ اسرائیل کی جارحیت اور غداری ہے۔
انہوں نے اسرائیل کو ایک ’مسترد شدہ‘ ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بین الاقوامی سطح پر کسی قانون یا قاعدے کی پرواہ نہیں کرتی۔
 ان کے مطابق ’یہ حملہ خلیج کے تمام ممالک کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ ان کی سلامتی کو ایک مستردشدہ ریاست کی جانب سے خطرہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حملہ ہماری ریاستوں کو ایسے خطرات کا سامنا کرنے اور نمٹنے کے لیے اپنی تزویراتی پالیسی کی ازسر نو ترتیب دینے کا پیغام دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو کسی صورت فری ہینڈ نہیں دیا جانا چاہیے۔‘

شہزادہ ترکی الفیصل نے دو ریاستی حل کی طرف ہونے والی حالیہ پیشرفت کا خیرمقدم بھی کیا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اس موقع پر عرب نیوز کے قیام کے وقت کی یادیں بھی تازہ کیں، جس کے لیے انہوں نے مدد بھی کی تھی۔ انہوں نے اخبار کے عملے کو 50ویں سالگرہ پر مبارکباد بھی دی۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے اپنے خطاب میں اسرائیل فلسطین امن عمل اور بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ کا تذکرہ بھی کیا۔
ان کے مطابق ’مجھے یقین ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے نے غیریقینی کی اس صورت حال کو اتنا محسوس نہیں کیا جتنا مشرق وسطیٰ نے کیا ہے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’تسلسل سے چلی آ رہی اس صورت حال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے، یہ ایک کھلا سوال ہے، تاہم جب خطے کے ممالک اور رہنما اس صورت حال کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں تو امریکہ اس کا سب سے بڑا حصہ اٹھاتا ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہم امریکہ کو ایک دیانتدار ثالث کے کردار سے اسرائیل کے کٹر اتحادی کے کردار کی طرف اترتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور غزہ و مغربی کنارے میں اس کی جانب سے ہونے والی حالیہ نسل کشی کی جنگ میں امریکہ کی جانب سے واضح طور پر نظر آنے والے دوہرے معیار کا گواہ صرف عرب نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام لوگ بھی ہیں۔‘
ان کے بقول ’اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ قیام امن کے داعی بننا چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ چاہتے ہیں، تو ان کو امریکہ کے دوستوں اور اتحادیوں کی جانب سے امن کو نقصان پہنچانے کی غلطیوں کو سدھارنا چاہیے۔‘

ترکی الفیصل کا کہنا تھا کہ اگر صدر ٹرمپ امن کے داعی بننا چاہتے ہیں تو امریکہ کے دوستوں اور اتحادیوں کی غلطیوں کو بھی سدھاریں (فوٹو: اے ایف پی)

شہزادہ ترکی الفیصل نے دو ریاستی حل کی طرف ہونے والی حالیہ پیشرفت کا خیرمقدم بھی کیا کیونکہ سعودی عرب اور فرانس کے سفارتی دباؤ کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فسطین کی ریاست کو تسلیم کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
 انہوں نے اسرائیل کے ایسے الزامات کو بھی رد کیا جن میں فلسطین کو تسلیم کرنے کو حماس اور اس کے سات اکتوبر کو ہونے والے حملوں کا انعام قرار دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مملکت، فرانس اور دوسرے ممالک جنہوں نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا یہ حماس کے لیے انعام کیسے ہے۔ فلسطین کے عوام کو ان کے جائز حق سے محروم کرنا کتنا بڑا دھوکہ اور شیطانی دعویٰ ہے۔
ان کے مطابق ’یہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر 80 سال پرانا استعماری قبضہ اور وہاں کے عوام کے حق خود ارادیت سے انکار ہے، جس کا صلہ حماس اور اس جیسے دیگر گروہوں کو ملتا ہے، اگر قبضہ نہ ہو تو مزاحمت بھی نہیں ہو گی۔‘

شیئر: