پاکستان کا پاسپورٹ عمومی طور پر یوں تو دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں رینکنگ میں نچلے درجوں میں ہی آتا ہے، تاہم رواں سال ہنلی پاسپورٹ انڈیکس 2025 میں پاکستانی پاسپورٹ ٹاپ 100 میں شامل ہو کر 96 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
حکومتِ پاکستان پاسپورٹ کی درجہ بندی میں اس بہتری کو اپنے حالیہ اقدامات کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق پاکستان نے 2025 تک 50 ممالک کے ساتھ ڈپلومیٹک اور آفیشل پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے ویزا فری معاہدے کیے ہیں، جب کہ مزید ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے زیرِ غور ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سعودی اور پاکستانی پاسپورٹ کی 2025 میں عالمی رینکنگ کیا رہی؟Node ID: 884243
اسی طرح گرین پاسپورٹ کے حوالے سے بھی اب تک پاکستان کے 22 ممالک کے ساتھ معاہدے ہو چکے ہیں، جن کے تحت پاکستانی شہری ان ممالک کی شہریت بھی رکھ سکتے ہیں۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق پاسپورٹ کے معیار کو بہتر بنانے اور اس کے حصول کا عمل آسان بنانے کے لیے بھی اہم اقدامات کیے گئے ہیں، جن کے مثبت اثرات پاکستان کی عالمی پاسپورٹ رینکنگ پر مرتب ہوئے ہیں۔
وزارتِ داخلہ کے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے جواب کے مطابق ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ نے پاکستانی پاسپورٹ کو مزید محفوظ اور معیاری بنانے کے لیے جدید ای پاسپورٹ متعارف کرایا ہے۔
علاوہ ازیں، مشین ریڈایبل پاسپورٹ کے سکیورٹی فیچرز کو بھی اپ گریڈ کیا گیا ہے تاکہ جعلی پاسپورٹ بنانے کے عمل کا سدِباب کیا جا سکے جس سے رینکنگ میں بہتری آئی ہے۔
وزارتِ داخلہ کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ’موجودہ مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کو بتدریج ای پاسپورٹ میں منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ اسے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کے معیار سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ یہ تبدیلی قومی اور بین الاقوامی سطح پر ای گیٹ سہولت کے مؤثر استعمال کی راہ ہموار کرے گی۔‘

علاوہ ازیں ای پاسپورٹ میں جدید پولی کاربونیٹ ڈیٹا پیج مائیکروچپ شامل ہے جس میں پاسپورٹ ہولڈر کی بایومیٹرک معلومات محفوظ کی جاتی ہیں جبکہ اس میں خصوصی سکیورٹی فیچرز بھی دیے گئے ہیں تاکہ جعل سازی کو روکا جا سکے۔
محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے مطابق ایک نئی پاسپورٹ بک لیٹ تیار کی جا رہی ہے جس میں جدید سکیورٹی فیچرز شامل ہوں گے۔ اس میں لیزر انگریونگ ڈیٹا، محفوظ الیکٹرانک چِپس جو آئی سی اے او کے معیار کے مطابق ہوں گی، ویزا صفحات پر پاکستان کی تاریخی یادگاروں کی تصاویر اور نیا IPI جورا فیچر(حفاظتی فیچر) شامل ہوگا۔
علاوہ ازیں، پاسپورٹ ہولڈر کی والدہ کا نام بھی حفاظتی لائنز میں درج کیا جائے گا تاکہ پاسپورٹ مزید محفوظ بنایا جا سکے۔
کیا ملک میں پاسپورٹ کے حصول کے طریقۂ کار اور اس میں شامل کیے گئے نئے فیچرز کا پاسپورٹ کی رینکنگ بہتر بنانے میں کوئی کردار ہے؟
اردو نیوز نے امیگریشن اور پاسپورٹ کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاسپورٹ کی عالمی رینکنگ میں بہتری کے لیے کن اندرونی عوامل کا اہم کردار ہوتا ہے؟

اس بارے میں امیگریشن کے شعبے کا وسیع تجربہ رکھنے والے میجر ریٹائرڈ بیرسٹر ساجد مجید کہتے ہیں کہ ’کسی ملک کے اندر پاسپورٹ کے اجرا کے اصولوں میں آسانیاں پیدا کرنے یا پاسپورٹ کی سکیورٹی اور فیچرز میں بہتری لانے کا رینکنگ سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘
ان کے مطابق ’اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کے ساتھ کتنے ممالک ویزا فری معاہدے رکھتے ہیں اور یہ معاملہ براہِ راست اس ملک کے سیاسی و سماجی استحکام اور عوام کے معیارِ زندگی سے جڑا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس بات کا بھی گہرا اثر پڑتا ہے کہ ایک ملک کے شہری دوسرے ملک میں جا کر کیسا برتاؤ کرتے ہیں، یعنی وہ وہاں قوانین کی پاسداری کرتے ہیں یا نہیں، اور کیا وہ وقت پر واپس آ جاتے ہیں یا غیر قانونی طور پر قیام کرتے ہیں۔
پاسپورٹ کی رینکنگ کیسے بنائی جاتی ہے؟
ہنلی پاسپورٹ انڈیکس کے مطابق پاسپورٹ کی رینکنگ اس بنیاد پر بنتی ہے کہ اس کے حامل شہری کتنے ملکوں کا سفر ویزا لیے بغیر کر سکتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے دنیا کے 199 پاسپورٹس اور 227 مختلف منزلوں کا ڈیٹا استعمال کیا جاتا ہے جو بنیادی طور پر انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (ایاٹا) فراہم کرتی ہے، جسے بعد میں ہنلی اینڈ پارٹنرز کی ریسرچ ٹیم اپ ڈیٹ اور ویریفائی کرتی ہے۔
ہنلی پاسپورٹ انڈیکس کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق اگر کوئی پاسپورٹ ہولڈر کسی ملک میں بغیر ویزا داخل ہو سکتا ہے یا اسے ویزا آن ارائیول مل جاتا ہے تو اسے ایک پوائنٹ دیا جاتا ہے، لیکن جہاں پہلے سے ویزا لینا لازمی ہو وہاں کوئی پوائنٹ نہیں ملتا۔

انہی پوائنٹس کی بنیاد پر ہر پاسپورٹ کا سکور تیار کیا جاتا ہے اور پھر دنیا کے دیگر پاسپورٹس کے ساتھ اس کا موازنہ کر کے رینکنگ بنائی جاتی ہے۔ جتنا زیادہ سکور ہو گا، اس پاسپورٹ کی عالمی رینکنگ اتنی ہی بہتر ہوگی۔
پاکستانی شہری کون سے ممالک کی شہریت رکھ سکتے ہیں؟
محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے مطابق اب پاکستانی شہری برطانیہ، فرانس، اٹلی، بیلجیئم، آئس لینڈ اور آسٹریلیا کی شہریت کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ، کینیڈا، فن لینڈ، مصر، اردن، شام اور سوئٹزرلینڈ کی شہریت بھی برقرار رکھ سکیں گے۔
مزید برآں پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت نیدرلینڈز، امریکہ، سویڈن، آئرلینڈ، بحرین، ڈنمارک، جرمنی، ناروے اور لکسمبرگ کی شہریت بھی حاصل کرنے کی اجازت ہے اور ان تمام ممالک کی شہریت اختیار کرنے والے پاکستانیوں کو اپنی پاکستانی شہریت ترک نہیں کرنا پڑے گی۔
کون سے ممالک کے ساتھ نئے معاہدے کیے گئے؟
محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ نے دوہری شہریت رکھنے کے حوالے سے فرانس، اٹلی، بیلجیئم، آئس لینڈ، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، مصر، اردن، شام اور سوئٹزرلینڈ کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔
علاوہ ازیں نیدرلینڈز، سویڈن، آئرلینڈ، بحرین، ڈنمارک، جرمنی، ناروے اور لکسمبرگ کے ساتھ بھی یہ معاہدہ کیا گیا ہے۔

ماضی میں پاکستانی شہری ان ممالک کی شہریت رکھنے کی صورت میں پاکستانی شہریت سے محروم ہو جاتے تھے۔ تاہم نئے معاہدوں کے بعد پاکستانی شہریوں پر کسی ایسی پابندی کا اطلاق نہیں ہو گا۔
ان 22 ممالک میں سے برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے ساتھ پاکستان کا دُہری شہریت کے حوالے سے پہلے سے معاہدہ موجود تھا۔
ان ممالک کے علاوہ حکومتِ پاکستان نے ترکیہ کے ساتھ بھی دوہری شہریت کا معاہدہ کرنے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔
حکام کے مطابق ترکیہ نے پاکستان کو تجویز دی ہے کہ دونوں ممالک کے شہریوں کو ایک ساتھ دونوں شہریتیں رکھنے کی سہولت دی جائے۔
اس تجویز کا مسودہ تیار ہو رہا ہے اور وزارتِ داخلہ و وزارتِ خارجہ اس پر غور کر رہی ہیں۔ یہ معاہدہ اگر حتمی شکل اختیار کر لیتا ہے تو ترکی بھی اس فہرست میں شامل ہو جائے گا۔