Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوورسیز پاکستانیوں کے لیے سپریم کورٹ میں خصوصی سیل، درخواستوں کا ڈیجیٹل اندراج

سپریم کورٹ میں سمندرپار پاکستانیوں کے لیے ’اوورسیز لِٹیگنٹس فسیلیٹیشن سیل‘ قائم کیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اوورسیز پاکستانی طویل عرصے سے اس مشکل کا شکار رہے ہیں کہ وہ اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے بیرون ملک رہتے ہوئے براہِ راست سپریم کورٹ تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے تھے۔
بیرون ملک رہائش، وقت اور سفری اخراجات، عدالتی کارروائی سے باخبر رہنے میں دشواریاں اور دستاویزات کے حصول میں تاخیر وہ رکاوٹیں ہیں جنہوں نے سمندر پار شہریوں کے لیے انصاف کے دروازے عملی طور پر محدود کر رکھے تھے۔
ان ہی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے اب ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو براہِ راست ان پاکستانیوں کے لیے سہولت پیدا کرے گا اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔
اس مقصد کے لیے ’اوورسیز لِٹیگنٹس فسیلیٹیشن سیل‘ قائم کیا گیا ہے جو سپریم کورٹ کی پرنسپل سیٹ اسلام آباد میں کام کرے گا۔ اس سیل کی نگرانی چیف جسٹس پاکستان کے پرنسپل سٹاف آفیسر کریں گے اور یہ بنیادی طور پر ایک خصوصی رابطہ مرکز ہوگا۔ 
اوورسیز شہری اس سیل سے واٹس ایپ پیغام یا سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب آن لائن پورٹل کے ذریعے براہِ راست رابطہ کر سکیں گے۔ یہ سہولت صرف سپریم کورٹ سے متعلق مقدمات کے لیے ہوگی اور دیگر عدالتوں کے معاملات اس میں شامل نہیں ہوں گے۔
سیل کے قیام کے بعد بیرون ملک مقیم شہری اب اپنی درخواستیں اور شکایات ڈیجیٹل ذرائع سے جمع کرا سکیں گے، مقدمات کی فوری سماعت کے لیے درخواستیں دے سکیں گے، عدالتی احکامات کی مصدقہ نقول آن لائن حاصل کر سکیں گے اور اپنے کیسز کی پیش رفت سے باخبر رہ سکیں گے۔
 سپریم کورٹ نے اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ تمام کیسز کا باقاعدہ ڈیجیٹل ریکارڈ مرتب ہو اور وقتاً فوقتاً اس کی رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کی جائے۔
گذشتہ چند برسوں میں حکومتِ پاکستان نے اوورسیز پاکستانیوں کی قانونی معاونت کے لیے کئی اقدامات کیے تھے، جن میں وزارتِ اوورسیز پاکستانیز کے تحت قائم کیا گیا ’اوورسیز پاکستانیز کمپلینٹس پورٹل‘ نمایاں ہے جہاں پراپرٹی تنازعات اور پولیس یا بیوروکریسی سے متعلق شکایات درج کرائی جا سکتی ہیں۔

اسلام آباد میں اوورسیز کی جائیدادوں کے تنازعات سے متعلق خصوصی عدالتیں بھی قائم کی گئی ہیں (فوٹو: دی رپورٹرز)

 اسی طرح وفاقی محتسب نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایک الگ ڈیسک قائم کیا تاکہ سرکاری اداروں میں ان کی فائلوں اور شکایات پر تیز تر کارروائی ممکن ہو سکے۔ کچھ صوبوں نے بھی پراپرٹی ڈسپیوٹ ریزولوشن سیل قائم کیے جو خاص طور پر جائیدادوں پر ناجائز قبضے یا دستاویزات کے مسائل کو نمٹانے کے لیے فعال ہیں۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے بیرون ملک مقیم فریقین کو بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت بھی متعارف کرائی گئی تاکہ وہ پاکستان آئے بغیر اپنے مقدمات کا حصہ بن سکیں۔ اسی طرح اسلام آباد میں اوورسیز کی جائیدادوں کے تنازعات سے متعلق خصوصی عدالتیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ 
پنجاب اوورسیز کمیشن بھی ایک اہم پیشرفت سمجھی جاتی ہے جس سے اوورسیز پاکستانی مطمئن بھی دکھائی دیتے ہیں جبکہ دوسرے صوبے بھی اسی طرز کے کمیشن کے قیام پر کام کر رہے ہیں۔ 
یہ تمام اقدامات اوورسیز پاکستانیوں کو انصاف کے قریب لانے کی کوششوں کا حصہ رہے ہیں اور اب سپریم کورٹ کا یہ نیا سیل ان سہولتوں میں ایک اہم اور فیصلہ کن اضافہ تصور کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق اس سیل کے قیام کا بنیادی مقصد ایک ایسا خصوصی رابطہ مرکز فراہم کرنا ہے جو سمندر پار مقیم شہریوں کے لیے سہولت کاری اور معاونت کا ذریعہ بن سکے۔
ان افراد کے لیے ایک خصوصی واٹس ایپ نمبر +923264442444 جاری کیا گیا ہے جس پر صرف پیغام بھیجا جا سکے گا، کال کی اجازت نہیں ہوگی، جبکہ سپریم کورٹ کی سرکاری ویب سائٹ پر ایک آن لائن پورٹل بھی فعال کر دیا گیا ہے جس کے ذریعے مقدمات، درخواستیں اور شکایات براہِ راست جمع کرائی جا سکیں گی۔

کیسز کی رپورٹ وقتاً فوقتاً چیف جسٹس پاکستان کو پیش کی جائے گی (فوٹو: سپریم کورٹ)

اس سیل کے دائرہ کار میں آنے والے مقدمات اور درخواستوں کی ڈیجیٹل وصولی، ان پر کارروائی میں معاونت اور فوری سماعت کے لیے درخواستوں کی پراسیسنگ شامل ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ مقدمات کی پیش رفت سے باخبر رکھنے کے لیے عدالتی احکامات اور دستاویزات کی مصدقہ نقول الیکٹرانک ذرائع سے فراہم کی جائیں گی۔
ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ زیرِ سماعت تمام کیسز کا باقاعدہ ڈیجیٹل ریکارڈ مرتب کیا جائے گا اور اس کی رپورٹ وقتاً فوقتاً چیف جسٹس پاکستان کو پیش کی جائے گی تاکہ نگرانی اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ 
اس سیل کی تعریف میں ’اوورسیز لِٹیگنٹ‘ سے مراد کوئی بھی ایسا فریق ہے جو بیرون ملک مقیم ہو، چاہے اس کی شہریت کچھ بھی ہو، بشرطیکہ اسے قانون کے مطابق سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہو شامل کیا گیا تاکہ اس میں مقامی افراد کے بجائے صرف اوورسیز ہی درخواستیں جمع کروائیں۔

 

شیئر: