حکومتِ پاکستان نے اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے تین سے چھ ماہ کے مفت کورسز شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت پر مبنی ہوں گے۔
دستیاب معلومات کے مطابق یہ پروگرام وزیرِاعظم کے ’نیشنل سپیشل انیشی ایٹو‘ کے تحت متعارف کرایا جا رہا ہے، جس میں وفاقی وزارت اوورسیز پاکستانیز، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیوٹیک) اور دیگر ادارے شریک ہیں۔
اس اقدام کا بنیادی مقصد اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کو ایسی جدید مہارتیں دینا ہے جن کی عالمی سطح پر مانگ موجود ہے تاکہ وہ لیبر مارکیٹ میں بہتر مواقع حاصل کر سکیں اور بالواسطہ طور پر ملکی معیشت کو ترسیلات زر کی شکل میں سہارا دے سکیں۔
مزید پڑھیں
-
اوورسیز کی ترسیلاتِ زر پر سبسڈی: وقتی ریلیف یا پائیدار پالیسی؟Node ID: 893029
یہ پروگرام صرف اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے مختص ہوگا اور اس میں داخلے کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت میٹرک یا اس کے مساوی رکھی گئی ہے، جبکہ عمر کی حد 18 سے 40 سال مقرر کی گئی ہے۔ ان کورسز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ، الیکٹریکل، تعمیرات، بزنس مینجمنٹ، ہیلتھ، سیاحت اور دیگر ہنرمندی کے شعبے شامل ہیں۔
ان کورسز میں داخلے کے لیے آن لائن درخواست دینے کی آخری تاریخ 15 ستمبر 2025 مقرر کی گئی ہے اور امیدوار nsis.navttc.gov.pk پر فارم بھر سکتے ہیں۔ وزارت اوورسیز پاکستاںیز کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ کورسز مکمل کرنے والے نوجوان نہ صرف بیرونی ممالک میں روزگار کے مزید مواقع حاصل کریں گے بلکہ مقامی سطح پر بھی ہنرمند افرادی قوت کے طور پر سامنے آئیں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان سے بیرون ملک جانے والے ورکرز میں ہنرمند اور غیر ہنرمند دونوں طرح کے افراد شامل ہیں، تاہم غیر ہنرمندوں کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ رہی ہے۔
2024 میں مجموعی طور پر سات لاکھ 27 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے بیرون ملک روزگار اختیار کیا جن میں تقریباً 50 فیصد یعنی تین لاکھ 66 ہزار کے قریب غیر ہنرمند، جبکہ 35 فیصد کے لگ بھگ ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہنرمند ورکرز تھے۔
اسی طرح 2025 کی پہلی سہ ماہی میں ایک لاکھ 72 ہزار سے زائد پاکستانی بیرون ملک گئے جن میں تقریباً 99 ہزار غیر ہنرمند اور باقی لگ بھگ 73 ہزار ہنرمند یا نیم ہنرمند شامل تھے۔

یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ابھی بھی بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی اکثریت غیر ہنرمند کیٹیگری میں آتی ہے، لیکن بین الاقوامی لیبر مارکیٹ میں ہنرمند ورکرز کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث حکومت نے ان کورسز کو متعارف کرایا ہے تاکہ پاکستانی نوجوان بہتر اجرت اور بہتر مواقع حاصل کر سکیں۔
سعودی عرب میں وژن 2030 کے تحت بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبے جاری ہیں جن کے لیے ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح خلیجی ممالک مثلاً قطر اور بحرین میں بھی تعمیرات، آئی ٹی اور صحت کے شعبوں میں تربیت یافتہ ورکرز کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے ہنرمند نوجوانوں کو تربیت دینے پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ وہ عالمی لیبر مارکیٹ میں زیادہ مسابقتی کردار ادا کر سکیں اور ملک میں آنے والی ترسیلات زر میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو۔
تاہم اس سارے عمل میں کچھ خدشات بھی موجود ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس نوعیت کے کئی پروگرام متعارف کرائے گئے تھے، لیکن ان کی پائیداری اور نتائج پر سوالات اٹھتے رہے۔ کورسز مکمل کرنے کے بعد نوجوانوں کو عملی طور پر روزگار دلانے کے لیے کسی مؤثر میکنزم کی ضرورت ہے تاکہ یہ صرف کاغذی منصوبہ نہ بن کر رہ جائے۔