Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیٹ ونسلیٹ، جنہوں نے ٹائیٹنک میں ہدایتکار کو گلاب بھیج کر ’روز‘ کا کردار مانگا

1997 میں جب فلم ’ٹائیٹینک‘ آئی تو لوگوں کو سینما ہالز سے روتے ہوئے نکلتے دیکھا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں دنیا میں کسی بھی ملک سے زیادہ فلمیں بنتی ہیں اس کی ایک وجہ یہاں کی آبادی ہے وہیں اس کی دوسری وجوہات میں یہاں مختلف النوع تہذیب و ثقافت اور زبانیں شامل ہیں۔
اس کے باوجود انڈیا میں ہالی وڈ کی فلمیں بھی پسند کی جاتی رہی ہیں اور انڈیا میں ایک طبقہ ایسا رہا ہے جو انگریزی فلموں کا دیوانہ رہا ہے۔
اگر ہم انڈیا میں ہالی وڈ کی فلموں کی مقبولیت پر نظر ڈالتے ہیں تو سب سے پہلے ’گاڈ فادر‘ نظر آتی ہے جس کے بعد لوگ ان کے لیڈ اداکاروں الپچینو اور مارلن برینڈو کو پہچاننے لگے تھے۔ اس کے بعد ’انڈیانا جونز‘ سیریز آئی اور لوگوں نے ہیریسن فورڈ کو پہچانا۔
اس سے قبل لوگ فلم ’راکی‘ سے سلویسٹر سٹیلون کو پہچاننے لگے تھے پھر 1980 کی دہائی کے اوائل میں ’ریمبو‘ آئی اور انڈیا کے فلم شائقین اداکار سلویسٹر سٹیلون کے دیوانے نظر آئے۔
لیکن 1990 میں ایک ساتھ ’پریٹی وومن‘ اور ’گوسٹ‘ آئی جس نے اداکاروں سے زیادہ اداکاراؤں کو انڈیا میں مقبولیت عطا کی اور ایک ساتھ جولیا رابرٹس اور ڈیمی مور ناظرین کے حواس پر چھا گئیں۔
اس سے قبل سپیل برگ کی فلم ’جاز‘ نے ناظرین کو دنیا بھر کی طرح انڈیا میں بھی مسحور کیا تھا لیکن جب ان کی فلم ’جوراسک پارک‘ آئی تو اس نے انڈیا میں انگریزی فلموں کو دیکھنے کا نظریہ بدل دیا اور لوگ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ قطار میں کھڑے نظر آئے۔
بہر حال 1997 میں جب فلم ’ٹائٹینک‘ آئی تو اس نے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے اور لوگوں کو سینما ہالز سے روتے ہوئے نکلتے دیکھا گیا۔ اس فلم نے راتوں رات ایک ساتھ اداکار لیونارڈو دی کیپریو اور کیٹ ونسلیٹ کو ناظرین کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔

کیٹ ونسلیٹ ہالی وڈ کی ہیروئنز کے لیے طے کردہ مثالی شباہت پر پوری نہیں اترتی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)

آج ہم کیٹ ونسلیٹ کو ان کے 50ویں جنم دن پر یاد کر رہے ہیں۔ وہ پانچ اکتوبر سنہ 1975 کو انگلینڈ کے شہر ریڈنگ میں سیلی این اور راجر جان ونسلیٹ کے گھر پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ ویٹرس کا کام کرتی تھیں جبکہ ان کے والد تاعمر جدوجہد کرنے والے اداکار رہے۔
البتہ ونسلیٹ کے نانا نانی اداکاری کے میدان میں تھے اور وہ اپنا ایک تھیٹر بھی چلاتے تھے۔ لیکن کیٹ کی قسمت میں ان سب سے آگے جانا لکھا تھا۔
کیٹ ونسلیٹ کا برصغیر ہندو پاک میں فلم ٹائٹینک سے تعارف ہوا لیکن انہوں نے اداکاری کی دنیا میں اس سے قبل ہی ایک اداکار کے بجائے ایک آئیکون کے طور پر پہچان بنا لی تھی۔
انگلینڈ کے ریڈنگ میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی ایک نوجوان لڑکی کے طور پر کیٹ ہالی وڈ کی ہیروئنز کے لیے طے کردہ مثالی شباہت پر پوری نہیں اترتی تھیں۔ ان کے گول مٹول گال، گھنگرالے بال اور اداکاری کا بے انتہا شوق انہیں منفرد کرتے تھے۔
جب انہوں نے اپنی ایک سکول ٹیچر کو بتایا کہ وہ ایک اداکارہ بننا چاہتی ہے، تو انہوں نے مسکرا کر ان کی باتیں ان سنی کر دیں اور ان کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ اس کے برعکس انہوں نے کہا کہ وہ کسی ’موٹی لڑکی‘ کے کردار میں مناسب رہیں گی۔

کیٹ ونسلیٹ نہ صرف ’روز‘ کردار کے لیے منتخب ہوئیں بلکہ وہ ناقابل فراموش حد تک کامیاب ہوئيں (فوٹو: پیراماؤنٹ پکچرز)

پھر برسوں بعد جب انھیں اکیڈمی ایوارڈ یعنی بہترین اداکارہ کے آسکر انعام سے نوازا گیا تو انہوں نے بتا دیا کہ ’اب مجھے دیکھیں!‘۔ یہ کوئی تکبر میں کہا گيا جملہ نہیں تھا بلکہ ان کی فتح کا خاموش جشن تھا جس نے یہ ثاب کیا کہ کس طرح خام ٹیلنٹ فولاد کی طرح استقامت کے ساتھ لوگوں کی عام رائے کو توڑ سکتے ہیں۔
انہیں ’ٹائٹینک‘ میں بہترین اداکاری کے لیے گولڈن گلوب ایوارڈز اور اکیڈمی ایوارڈز دنوں میں نامزدگیاں ملیں لیکن وہ یہ انعام حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔
ٹائٹینک کا آڈیشن
جس وقت فلم ’ٹائٹینک‘ کے لیے کاسٹ کی تلاش کی جارہی تھی اس وقت تک وہ ’سینس اینڈ سینسبلیٹی‘ جیسی فلم میں اداکاری کر چکی تھیں اور وہ آسکر میں نامزدگی حاصل کر چکی تھیں۔
لیکن وہ ٹائٹینک میں ’روز‘ کا کردار چاہتی تھیں۔ چنانچہ انہوں فلم کے ہدایتکار جیمز کیمرون سے براہ راست رابطہ کیا۔ ایک 21 سالہ نوجوان کے لیے یہ ایک انتہائی جرات مندانہ قدم تھا۔
انہوں نے فون پر مبینہ طور پر کیمرون سے کہا کہ ’میں آپ کی روز ہوں۔‘ یہاں تک کہ انہوں نے انہیں ایک نوٹ کے ساتھ ایک گلاب بھیجا تھا۔ اور اس جرات مندی نے کام کر دکھایا۔

کیٹ کی شہرت ٹائٹینک کے آئس برگ یعنی برف کے تودے کی طرح تھی جس سے وہ تاریخی جہاز ٹکرایا تھا (فوٹو: آئی ایم بی ڈی)

وہ نہ صرف اس کردار کے لیے منتخب ہوئیں بلکہ وہ ناقابل فراموش حد تک کامیاب ہوئيں اور ان کی شہرت آسمان کی بلندیوں پر تھی۔ لوگوں نے اپنی محبوباؤں کو ’روز‘ اور محبوب کو ’جیک‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔
ان کی شہرت ٹائٹینک کے آئس برگ یعنی برف کے تودے کی طرح تھی جس سے وہ تاریخی جہاز ٹکرایا تھا۔ انہیں ان کے جسم کی وجہ سے میڈیا میں ٹرول بھی کیا گیا لیکن انہوں نے اسے اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔
برسوں بعد کیٹ مردوں کے سہ ماہی فیشن میگزن ’جی کیو‘ یعنی جینٹل مینز کواٹرلی کے لیے پوز دینے کے بعد پوسٹ پروڈکشن میں اپنے جسم کو ڈرامائی طور پر پتلا دیکھ کر وہ حیران رہ گئیں۔
انھوں نے عوامی طور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ایسی نظر نہیں آتی، اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ میں ایسا نظر آنا بھی نہیں چاہتی۔‘ کیٹ نے واضح کیا کہ ’صداقت کی اپنی اہمیت ہے۔ وہ کسی بھی چیز کا بہانہ نہیں کریں گی جو وہ نہیں ہیں، نہ کسی تصویر کے لیے، نہ ہالی وڈ میں فلم ملنے کے لیے۔‘
اسی طرح جب ان کی بیٹی میا تھراپلیٹن نے اداکاری میں دلچسپی ظاہر کی تو کیٹ نے انہیں کوئی شارٹ کٹ نہیں بتا۔ انہوں نے کہا کہ ’جو کچھ کرنا ہے  آپ کو خود ہی کرنا ہے۔‘ در حقیقت، ان کی بیٹی نے تھوڑے دنوں تک ایک مختلف کنیت کے ساتھ کام کیا، اور زیادہ تر لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیٹ کی بیٹی ہیں۔

حالیہ برسوں میں کیٹ فلم سازی میں حفاظت اور سچائی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے والی بلند آواز بن گئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

کیٹ کا خیال تھا کہ اگر ان کی بیٹی کامیاب ہونے والی ہے، تو اسے اس کی اپنی قابلیت پر ہونا چاہیے۔ کوئی ہاتھ پکڑ کر اسے کامیابی کے زینے نہیں چڑھا سکتا، بالکل اپنی ماں کی طرح۔
ایک بار برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برانسن کے نجی جزیرے پر چھٹیاں گزارنے کے دوران وہ جس گھر میں مقیم تھے اس پر آسمانی بجلی گری جس سے گھر میں آگ لگ گئی۔ افراتفری کے درمیان، کیٹ نے برانسن کی 90 سالہ ماں کو ننگے پاؤں اور موسلا دھار بارش میں اٹھا کر باہر محفوظ مقام تک لے جانے میں مدد کی۔
جب بعد میں پوچھا گیا تو انہوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ بس وہی کریں جو آپ کو کرنا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ کسی فلم سٹار سے پہلے ایک انسان ہیں۔
حالیہ برسوں میں کیٹ فلم سازی میں حفاظت اور سچائی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے والی بلند آواز بن گئیں۔ ’ایمونائٹ‘ کی فلم بندی کے دوران، جہاں انہوں نے دوسری عورت کے ساتھ رومانوی تعلقات میں ایک عورت کا کردار ادا کیا، انہوں نے مباشرت کے مناظر کی فلم بندی کے لیے کوآرڈینیٹر رکھنے پر اصرار کیا۔ نہ صرف اپنے لیے، بلکہ اپنی ساتھی اداکارہ ساؤریسے رونن کے لیے۔
کیٹ نے کہا کہ ’اس میں شرم کی بات نہیں تھی یہ ریلیکس رہنے، وقار، اور احترام کے بارے میں تھا، اگرچہ اس میں صرف دو لوگ تھے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔‘
کیٹ کو اگرچہ ٹائیٹنک کے لیے ایوارڈ نہیں ملے لیکن 2008 میں انہوں نے اپنے لیے دو پروجیکٹ منتخب کیے جن میں سے ایک ان کے شوہر اور ہدایتکار سیم میڈس کا ’ریوولیوشنری روڈ‘ یعنی انقلابی راستہ تھا۔

جب نکول کڈمین نے حاملہ ہونے کی وجہ سے فلم ’دی ریڈر‘ چھوڑ دیا اور ان کی جگہ کیٹ کو لیا گیا (فوٹو: ای پی اے)

اس میں وہ ایک بار پھر لیونارڈو کے ساتھ تھیں۔ اسے ناقدین نے بہت سراہا۔ نیویارک میگزن کے ڈیوڈ ایڈلسٹین نے لکھا کہ ’ان کی پرفارمنس میں کوئی بھی لمحہ دلچسپی کے بغیر نہیں تھا نہ ہی ان کی کوئی ادا اور نہ ہی ان کا ایک لفظ۔‘
دوسرا پروجیکٹ ان کی جھولی میں خود آکر گرا جب نکول کڈمین نے حاملہ ہونے کی وجہ سے فلم ’دی ریڈر‘ چھوڑ دیا اور ان کی جگہ کیٹ کو لیا گیا۔ اس فلم میں انہوں نے نازی عقوبت خانے کی ایک ناخواندہ گارڈ حنا شمٹز کا کردار ادا کیا اور اس کی اداکاری کے لیے انہوں نے بہت مطالعہ کیا یہاں تک کہ انہیں اس کے لیے اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گيا۔
اس فلم میں ان کی اداکاری کو بے خوف قرار دیا گیا ہے جو کہ اپنے جسم کو دکھانے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرتی لیکن وہ اپنے کرادر کے نفسیاتی پہلو کو چھپانے میں بھی بہادری کا مظاہرہ کرتی ہے۔
کیٹ ونسلیٹ نے اپنے تقریباً 30 سالہ فلمی کیریئر میں برباد محبت کرنے والوں، پیچیدہ ماؤں اور لچکدار باغیوں کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ان کی اصل میراث پردۂ سیمیں پر نہیں ملتی ہے بلکہ یہ ان کی مختلف النوع اور رنگا رنگ شخیت میں ہے جس میں ان کا ہالی وڈ کے اصولوں کو چیلنج کرنا، اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے کھڑا ہونا وغیرہ شامل ہے۔

 

شیئر: