Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ہم مشین بن چکے ہیں؟ عامر خاکوانی کا کالم

مشین کی کہانی دراصل ایک شاہکار انگریزی فلم ’ماڈرن ٹائمز‘ میں بیان کی گئی ہے۔ فائل فوٹو: سکرین گریب
ابتدا ایک کہانی سے کرتے ہیں، وہ بھی فلمی کہانی۔ اس میں اگرچہ وہ نکتہ موجود ہے جس پر بات کرنا چاہ رہا ہوںیہ ایک نوجوان کی کہانی ہے۔ وہ نوجوان طبعی طور پر خوش مزاج اور خوش اخلاق تھا۔ اس کے مزاج میں شگفتگی تھی۔ المیہ فلمیں، اداس گانے، اداسی طاری کر دینے والے ناول اور مناظر اسے ناپسند تھے۔ وہ ہنستا کھیلتا، گھروالوں اور دوستوں سے ہنسی مذاق کرتا رہتا۔ اس کی تمام خواہشات، احساسات اور ولولے بیدار تھے۔ ایک زندہ دل انسان جو دوستوں کی صحبت کو پسند کرتا، اپنی ماں سے بے پناہ محبت کرتا، اور اسے خوش کرنا چاہتا تھا۔ اپنی محبوبہ منگیتر اسے پسند تھی، وہ آنے والے خوش رنگ دنوں کے سپنے اس کے ساتھ بھی شیئر کرتا۔ اپنی ماں کو جب بھی ملتا، ایسی یگانگت اور الفت سے ملتا جیسے کئی دنوں بعد ملاقات ہوئی ہے۔ کسی دوست کو دیکھتا تو سچی دوستی کے جذبے سے سرشار اس سے ملتا۔
اسے یہ پریشانی تھی کہ کہیں ملازمت نہیں مل رہی۔ آخرکار اسے ایک بہت بڑی فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ اسے ایک بڑے ہال کمرے میں لے جایا گیا جہاں دھات کی بنی ہوئی ایک بڑی بیلٹ مسلسل متحرک تھی۔ یہ بیلٹ ہال کے ایک کونے سے آتی اور درمیان سے گزر کر ایک دوسری جگہ چلی جاتی جہاں دوسرے پرزوں کی اسمبلنگ کا کام ہوتا تھا۔ نوجوان کی ملازمت یہ تھی کہ وہ رینچ ہاتھ میں پکڑ کر مستعد کھڑا رہے اور اس متحرک بیلٹ پر دو پیچوں کو چھوڑ کر تیسرے پیچ کو گھما دے۔ پھر اگلے دو پیچوں کو چھوڑ کر تیسرے کو گھما کر کَس دے۔ یہ کام اسے متواتر کرنا تھا۔ دن کے دس گھنٹوں میں وہ یہی کام کرتا رہتا۔ اس کے ساتھ دائیں بائیں کچھ فاصلہ چھوڑ کر سات آٹھ اور مزدور بھی کھڑے اسی نوعیت کا کام کر رہے تھے۔ متحرک بیلٹ اس تیزی سے چلتی رہتی کہ ان تمام لوگوں کو آپس میں بات کرنے کا موقع بھی نہیں مل پاتا۔ اگر کوئی لمحے بھر کے لیے بھی چوکتا تو بیلٹ کا کوئی پیچ ان کسا رہ جاتا اور یوں پورا کارخانہ بند ہو جانے کا خطرہ تھا۔ اس کے ساتھ محنت کش پرانے اور تجربہ کار تھے، انہوں نے کبھی اس سے بات کرنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ وہ اس کا نتیجہ جانتے تھے۔ یہ نوجوان البتہ ابھی ناتجربہ کار اور مشینوں کے ساتھ کام کر کے مشین نہیں بنا تھا۔ تاہم ملازمت اسے مشکل سے ملی تھی وہ پوری مستعدی سے اپنا کام سر انجام دیتا رہا۔
ایک دن اس کی زندگی میں عجب موڑ آیا۔ وہ کام میں مصروف تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ اس کا دوست اسے ملنے آیا ہے۔ وہ خوشدلی سے اسے دیکھ کر مسکرایا۔ اچانک اس کی نظر داخلی دروازے پر پڑی تو پتہ چلا کہ اس کی ماں اور منگیتر بھی اسے ملنے آئی ہیں۔ اس سے رہا نہ گیا۔ خوشی سے سرشار اس نے اپنا رینچ نیچے رکھا اور ان کی جانب سلام دعا کرنے کے لیے مڑا۔ ابھی وہ ان سے بات بھی نہیں کرنے پایا تھا کہ اچانک سرخ بتیاں جل اٹھیں،الارم بجنے لگے اور پولیس والے تیزی سے ہال میں داخل ہوئے۔ کارخانے کے کنٹرول سسٹم نے اطلاع دی تھی کہ ایک پیچ کسے بغیر رہ گیا یوں پورا سسٹم جام ہو گیا۔ پولیس والوں نے اسے حراست میں لے لیا کہ اس کی جرات کیسے ہوئی یہ کرنے کی۔ اسے سزا سنائی گئی۔ انسانی جذبات کے ایک لمحے نے اس پورے مشینی نظام کو جامد کر دیا۔۔۔ وہ مشینی نظام جسے تخلیق بھی اس طرح کیا گیا کہ اس میں کسی قسم کے انسانی جذبات اور محسوسات کا دخل نہ ہونے پائے۔

فلم کی کہانی میں ایک پیچ کسے بغیر رہ گیا اور یوں پورا سسٹم جام ہو گیا۔ فائل فوٹو: سکرین گریب

سزا پانے کے بعد اس کی تربیت کی گئی، کارخانے والوں نے اس کی ایسی برین واشنگ کی کہ وہ خود کو ایک ’ذمہ دار‘ انسان بنائے اور ایک مشین ہی کی طرح مشینوں کے معاملات سنبھالے۔ اس تربیت اور ڈسپلنڈ لائف گزارنے کا نتیجہ کیا نکلا؟ وہ نوجوان ذہنی طور پر ایک ایسی مشین میں بدل گیا جو شام کو کارخانے سے شفٹ ختم ہونے کے بعد بھی اپنی مشینی عادات اور روٹین کو نہیں بھولتا۔ وہ پیچ گھمانے والا ایک ایسا پرزہ بن گیا جو دو پیچوں کو چھوڑ کر تیسرے کو ہر حال میں کس دے گا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب وہ کسی سڑک کنارے کھڑے پولیس والے کو دیکھتا جس کی وردی پر پیچوں سے مشابہ بٹن ہیں تو وہ فوراً اپنا رینچ نکال کر تیسرے بٹن کو کسنے کے لیے تیار ہو جاتا۔ جب وہ کوٹ میں ملبوس اور ہیٹ پہنے کسی خاتون کو دیکھتا تو اس کے ہیٹ پر لگے بٹن نما چیزوں میں سے تیسرے بٹن کو گھمانے کی کوشش کرتا۔ اس کے لیے دنیا صرف ایک ہی بات کا نام ہے کہ ’دو کو چھوڑ کر تیسرے کو گھماؤ۔‘
یہ کہانی دراصل ایک شاہکار انگریزی فلم ’ماڈرن ٹائمز‘ میں بیان کی گئی ہے۔ چارلی چپلن کی اس خاموش کامیڈی فلم کو لگ بھگ 90 برس قبل فلمایا گیا تھا اور آنے والے ماڈرن وقت کی نقشہ کشی کی گئی۔ یہ چارلی چپلن کی آخری خاموش کامیڈی فلم تھی۔ یہ فلم اُس زمانے میں ریلیز ہوئی جب ہالی وُڈ میں بولنے والی فلمیں (Talking Pictures) عام ہو چکی تھیں، مگر چپلن نے خاموش فلم کے انداز کو برقرار رکھا۔ فلم میں کچھ ڈائیلاگز اور آوازیں موجود ہیں، مگر چپلن کے کریکٹر کی زبان خاموش ہے صرف چہرے کے تاثرات، حرکات، اور موسیقی سے پیغام دیا گیا ہے۔ چارلی چپلن نے اس فلم میں خود موسیقی بھی کمپوز کی، جس میں مشہور دُھن“Smile’’  بعد میں ایک کلاسک گانا بنی۔ فلم میں صنعتی معاشرت، بے روزگاری، غربت، اور مشینوں پر انحصار جیسے مسائل پر طنز اور درد دونوں کو یکجا کیا گیا ہے۔
چارلی چپلن نے اپنے مخصوص انداز سے اس فلم کا مرکزی کردار ’لٹل ٹریمپ‘ ادا کیا۔ لٹل ٹریمپ جو ماڈرن انڈسٹریلائزیشن کے عہد میں اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے۔ ماہرین اور ناقدین متفق ہیں کہ لٹل ٹریمپ کا کردار لیجنڈری حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایسا علامتی کردار ہے جس میں آنے والے کئی زمانوں کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ یونیسکو نے اس فلم کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا ہے اور آج بھی فلم سکولوں میں یہ فلمی تعلیم کی کلاسک مثال کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے ایک آدھ پہلے بھی کچھ لکھا، کئی بار دوستوں سے اس پر بحث بھی ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب بھی ایک خاص طرز کی مشینیں بن چکے ہیں۔ ایک میکانکی انداز ہر ایک میں در آیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمیں کسی مشین نے یا مصنوعی ذہانت نے غیر محسوس انداز سے یوں پروگرام کر دیا ہے کہ ہم دانستہ نادانستہ ایک خاص پیٹرن کو فالو کرتے ہیں۔

چارلی چپلن کی اس خاموش کامیڈی فلم کو لگ بھگ 90 برس قبل فلمایا گیا تھا۔ فائل فوٹو

اس کا تجربہ کرنا بہت آسان ہے۔ آپ لوگ کبھی کسی محفل میں بیٹھے لوگوں پر نظر ڈالیں، بے تکلف دوستوں کی محفل کا بھی جائزہ لیں۔ ہر ایک آپ کو ایک مشین بنا جذبات، احساسات سے عاری موبائل پر نظریں گاڑے نظر آئے گا۔ کئی دنوں، ہفتوں، مہینوں کے بعد بھی اکھٹے ہونے والے دوست اپنے موبائل اور سوشل میڈیا سٹیٹس، پوسٹوں سے نظر نہیں ہٹا سکتے۔ اپنے لمحہ موجود کو چھوڑ کر وہ سائبر دنیا، ورچوئل ورلڈ کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ پھر جیسے ہی کھانا آئے گا، ہر کوئی فٹافٹ تصاویر بنا کر اسے فوری پوسٹ بنا دے گا۔ کھانے کے درمیان ہی میں ویٹرز سے تصاویر بنوائی جائیں گی، بعد میں گروپ فوٹو بنے گا اور اس کا واحد مقصد سوشل میڈیا پوسٹ بنانا ہوتا ہے۔ مجھے تو کئی بار لگتا ہے کہ ہم اب اپنے دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں کی حسین یاد اپنے اندر محفوظ کرنے، اپنے ذہن میں نقش کرنے کے بجائے اسے فوری سوشل پوسٹ بنا کر اپنے ذہن سے نکال دینا چاہتے ہیں۔
اگر آپ ایمانداری سے اپنے اردگرد اور خود اپنے معمولات کا جائزہ لیں گے تو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم لوگ بھی چارلی چپلن کی اس فلم کے مرکزی کردار لٹل ٹریمپ کی طرح ایک مشین ہی بن چکے ہیں۔ ایسی مشین جو صبح اٹھنے سے رات سونے تک ایک میکانکی انداز سے سب کام کرتی ہے۔ ایسی مشین جس کی شعوری کوشش ہوتی ہے کہ انسانی جذبات اور محسوسات اس کے قریب تک نہ پھٹکنے پائیں کہ کہیں اس کی کارکردگی متاثر نہ ہو جائے۔ ایسی مشین جس کا منتہائے مقصود ہی کوئی ادنیٰ ٹاسک پورا کرنا ہے۔
آج کے عہد کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم خواب دیکھنا بھول گئے ہیں۔ وہ خواب جو زندگی کا حقیقی مفہوم مہیا کرتے ہیں۔ جو اسے عام روٹین میں رچی بسی ادنیٰ زندگی سے ماورا کرتے ہیں۔
کسی بڑے آدرش، بڑے مقصد کے لیے زندگی گزارنے کا تصور نایاب ہو گیا ہے۔ زیادہ پہلے کی بات نہیں، ہماری سیاست، علم و ادب اور مذہبی حلقوں میں ایسے بے شمار لوگ مل جاتے تھے جن کی آنکھوں میں سپنے سجے ہوتے۔ وہ اپنے بلند عزائم کی خاطر بے پناہ قربانیاں دیتے، تبدیلی کی خواہش لیے زندگی بھر سرگرداں رہے۔ وہ نسل ناپید ہو چکی۔

اس وقت موبائل فون اور سوشل میڈیا انسانی زندگی کا اہم جزو بن چکا ہے۔ فائل فوٹو: فری پک

آج المیہ یہ بھی ہوا کہ ان بلند عزائم، معاشرے میں تبدیلی لانے کے خواہشمند لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے ’’عبرت کے نشان‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ نوجوان ان کی زندگیوں کو دیکھتے اور ان کے پیروی نہ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ بھی اس راستے پر چل پڑے تو ان کی ذاتی وش لسٹ کا کچھ نہیں بنے سکے گا؟ مہنگے موبائل، آئی فون، عالیشان ہوٹلوں میں ڈنراور بڑی گاڑیاں، کچھ نہیں ملے گا۔
چارلی چپلن کی یہ خاموش فلم ماڈرن ٹآئمز صرف ایک فلم نہیں، بلکہ ایک فلسفیانہ بیانیہ ہے جو بتاتا ہے کہ ترقی کی اصل قیمت انسانی خوشی اور آزادی ہے، اور وہ قیمت ادا نہیں کرنی چاہیے۔ افسوس کہ ہم میں سے بہت سوں کے پاس شاید اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ ٹھہر کر چند منٹوں کے لیے غور کر لے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟
کیا وہ خواب بھی دیکھتا ہے یا نہیں۔ اگلا سوال یہ ہے کہ اس کے خواب جانوروں کی طرح بہتر خوراک، بہتر ٹھکانے اور جنس سے متعلق ہیں یا ان میں اپنے سماج کو بدل ڈالنے اور کوئی عملی اقدام اٹھانے کی خواہش بھی موجود ہے؟
کہیں خدانخواستہ ہم لوگ بھی انسان نما مشین تو نہیں بن چکے؟

 

شیئر: