فیودور دستوئیفسکی دنیائے ادب کا لیجنڈ فکشن نگار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ انسانی کے دو عظیم ترین ناول نگاروں میں سے ایک دستوئیفسکی ہے جبکہ دوسرا لیو ٹالسٹائی ہے۔ یہ روس کی خوش نصیبی ہے کہ دونوں عظیم ادیب اس کی سرزمین میں پیدا ہوئے۔
مجھے یاد ہے کہ جب لاہور میں پہلی بار آیا اور صحافت سے وابستہ ہوا تو جلد ہی نامور ادیب، فکشن اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد سے ملنے گیا۔ اشفاق صاحب سے وہ ملاقات ایسی شاندار، معلومات افزا اور میری زندگی کا رخ بدل دینے والی تھی کہ لگ بھگ 28 برس گزر جانے کے باوجود اس تین چار گھنٹوں کی ملاقات کے بیشتر حصے ذہن میں محفوظ ہیں۔ اسی ملاقات میں اشفاق صاحب سے پوچھا کہ آپ کی نظر میں عظیم ادیب کون سے ہیں اور آپ کن دو ادبی ماسٹر پیس کو پڑھنا ریکمنڈ کریں گے۔ اشفاق صاحب نے ایک لمحہ انتظار کیے بغیر جواب دیا، ٹالسٹائی اور دستوئیفسکی۔ پھر اشفاق صاحب نے ٹالسٹائی کے شاہکار ناول ’وار اینڈ پیس‘ اور دستوئیفسکی کے عظیم ناول ’برادرز کرامازوف‘ کا تذکرہ کیا۔
مزید پڑھیں
-
کیا آپ کی بھی کوئی ’لائف لسٹ‘ ہے؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 893242
-
غلط کون ہے آپ یا وہ؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 893753
ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں یہ دو ناول ضرور پڑھ لیے جائیں اور اگر مزید وقت ملے تو ٹالسٹائی کا ناول ’اینا کارینینا‘ اور دستوئیفسکی کے دیگر ناول اور ناولٹ۔ دستوئیفسکی کے وہ بہت بڑے مداح تھے اور ان کے خیال میں اس لیجنڈ روسی ادیب کی ہر تحریر شاندار اور ناقابل فراموش ہے۔ تب یہ دونوں ناول اردو میں ترجمہ نہیں ہوئے تھے یا شائع نہیں ہوئے تھے۔ یہ دونوں ماسٹر پیس اردو کے لاجواب مترجم شاہد حمید نے ترجمہ کیے۔
دستوئیفسکی کا باقی کام ظ انصاری برسوں پہلے اردو میں منتقل کر چکے تھے، اگرچہ وہ کام آؤٹ آف پرنٹ ہوچکا تھا۔ ظ انصاری (اصل نام ظل حسنین نقوی) روسی زبان جانتے تھے اور براہ راست ترجمہ کرتے رہے۔ ایک زمانے میں سوویت یونین کی حکومت مختلف زبانوں میں ایسے تراجم شائع کراتی تھی، ظ انصاری کے کیے گئے تراجم میں ’جرم اور سزا‘، ’ذلتوں کے مارے لوگ‘، ’ایڈیٹ‘ اور دیگر ناولٹ ’چچا کا خواب‘، ’ایک نہایت افسوسناک واقعہ‘ وغیرہ شامل ہیں۔
دستوئیفسکی کے دو مشہور ناولوں کے حوالے سے ایک اور قصہ مشہور ہے۔ نامور محقق، سکالر اور مصنف ول ڈیورانٹ اور ان کی اہلیہ بھی دستوئیفسکی کے بڑے مداح تھے۔ ایک بار مسز ول ڈیورانٹ کسی دوسرے شہر عزیز و اقارب سے ملنے گئیں، انہوں نے خاوند کو تار بھیجا کہ دنیا کا سب سے بڑا ناول میں ساتھ لیے جا رہی ہوں۔ واپس آئیں تو شوہر نے پوچھا کہ تم نے تو دنیا کے سب سے بڑے ناول کا کہا تھا، مگر ’برادرز کرامازوف‘ تو لائبریری میں پڑا ہے، مسز ول ڈیورانٹ نے جواب دیا، میں اپنے ساتھ ’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘ (جرم اور سزا) لے گئی تھی، وہ میرے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا ناول ہے۔
دستوئیفسکی کی دنیا میں ایسا ہی ہے، یہ ایسی طلسماتی، فسوں خیز، سحر انگیز ہے کہ اس میں ان کا لکھا گیا ہر ادبی کام غیرمعمولی اور شاندار لگتا ہے۔ ’برادرز کرامازوف‘ اور ’جرم اور سزا‘ دونوں یقیناً بڑے ناول ہیں۔ ہر عظیم ناول کی طرح مگر وہ پورا فوکس اور یکسوئی چاہتے ہیں۔ ویسے نئے قارئین کو دستوئیفسکی کا انداز قدرے مبہم اور الجھا ہوا سا لگے گا۔ دراصل دستوئیفسکی کو ایک غیرمعمولی ماہر نفسیات بھی کہا جاتا ہے۔ وہ انسانی شخصیت کے تہہ در تہہ گوشوں اور داخلی تضادات کو کمال مہارت کے ساتھ سامنے لاتا ہے۔ اگلے روز ایک دوست نے خوبصورت بات کہی کہ ہم جس منظر کو ایک لمحے کے لیے دیکھ کر گزر جاتے ہیں، دستوئیفسکی اس منظر پر دو صفحے لکھ کر اسے امر کر دیتا ہے۔

گذشتہ ہفتے 10 دنوں میں دستوئیفسکی کے اکٹھے تین ناول پڑھنے کا موقع ملا۔ ان میں سے ایک ناول ’گیمبلر‘ کے نام سے ہے، ایک زمانے میں اس کا ترجمہ سید قاسم محمود نے ’جواری‘ کے نام سے کیا تھا۔ دوسرے دو نسبتاً مختصر ناول یا ناولٹ ہیں، ’چچا کا خواب‘ اور ’نہایت افسوسناک واقعہ۔‘
’گیمبلر‘ ایک بہت دلچسپ ناول ہے۔ رولیٹ کے کھیل کے گرد گھومتی کہانی جس کے مختلف کردار دستوئیفسکی کے قلم نے امر کر دیے۔ آپ یہ ناول پڑھیں اور یقین کریں کہ ناول کے مرکزی کردار کے علاوہ ہیروئن پولینا، اس کے سوتیلے والد جو روسی فوج میں جنرل یا شاید کرنل تھا، فرانسیسی دے گرئیے اور مادموزیل بلانچ وغیرہ کے کرداروں کو اپنے سامنے مجسم نہ دیکھ سکیں۔ سب سے بڑھ کر نانی کا کردار، ان کی کاٹ دار جملے بازی، دبنگ شخصیت اور پھر رولیٹ کی میز پر ہزاروں روبل ہار جانا۔
اس سے قبل یہ سنا اور پڑھا تھا کہ فلاں ادیب کسی کردار کی قلمی تصویر بنا دیتا ہے، ایسی جو تصور میں واضح دیکھی جا سکے۔ یہ جادو دستوئیفسکی میں کمال درجہ پایا جاتا ہے۔ اس ناول میں اگرچہ فرانسیسیوں کے لیے ایسے کاٹ دار طنزیہ جملے ہیں جو یقینی طور پر اس ناول کے فرانسیسی زبان میں ترجمے کے بعد فرانس میں پسند نہیں کیے گئے ہوں گے۔ کاش میں وہ فقرے نقل کر سکتا۔
مجھے سب سے زیادہ دستوئیفسکی کے دونوں ناولٹ ’چچا کا خواب‘ اور ’نہایت افسوسناک واقعہ‘ پسند آئے۔ یہ ناول تب لکھے گئے جب اس عظیم روسی ادیب کا فن اپنے عروج پر تھا، تاہم ان دونوں کو دستوئیفسکی نے خوشگوار موڈ میں لکھا، کہانی آسان، دلچسپ اور ہلکی پھلکی سی ہے۔ پاکستان میں دستوئیفسکی کے تقریباً تمام ناول، ناولٹ بک کارنر جہلم نے شائع کیے ہیں۔

’نہایت افسوسناک واقعہ‘ کی کہانی بہت مزے کی ہے اور ہمارے ہاں پی ٹی وی کے سنہری زمانے میں شاید کسی ڈرامے میں بھی اس سے استفادہ کیا گیا۔ ایک روسی اعلٰی افسر اچانک بغیر کسی وجہ کے اپنے ایک ملازم کی شادی میں پہنچ جاتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ اعلٰی اور ادنٰی طبقے کا فرق مٹایا جا سکے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کسی معمولی ملازم کے گھر اس ریاست کا نواب یکایک آ دھمکے تو میزبانوں پر کیا گزرے گی؟ انہیں یہ سمجھ نہیں آئے گی کہ عالی قدر مہمان کی تواضع کیسے کریں؟ اسے خوش کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کریں؟ اس ناولٹ میں بھی کردارنگاری کمال درجہ پر پہنچی ہوئی ہے۔ کردارایسے تراشے ہوئے ہیں، ان کی جزئیات ایسی عمدگی سے بیان کی گئی ہیں کہ آپ کے ذہن میں ان کا پورا سراپا، خدوخال، حتیٰ کہ چہرے کے تاثرات تک آ جائیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان پر کوئی ڈرامہ یا شارٹ مووی بنائی جائے (یا بنی ہو گی) تو ڈائریکٹر کے لیے کام آسان ہو جائے گا۔
’چچا کا خواب‘ بھی ایک دلچسپ پلاٹ پر لکھا گیا ناولٹ ہے۔ ایک پُرسکون سا قصبہ نما شہر مرداسوف جس میں ایک خاتون ماریہ الیگزینڈرونا اپنی حسین صاحبزادی کے ساتھ رہتی ہیں۔ اس قصبے میں ایک کاؤنٹ جن کا نام نہیں بتایا گیا اور اس کی جگہ لفظ ’ک‘ استعمال کیا گیا، وہ مرغ زریں کی طرح اکڑتے ہوئے وارد ہوئے اوراتفاق سے ماریا الیگزینڈرونا کے ہاں مقیم ہوئے۔ اب کہانی نے جو موڑ لیا اور پھر اس میں جو ٹوئسٹ آئے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہر وہ قاری جو دستوئیفسکی کو پڑھنا تو چاہتا ہے، مگر اس کے بڑے ناولوں کی کسی قدر پیچیدگی اورغیرمعمولی قوت سے خوفزدہ ہے، اسے دستوئیفسکی کے یہ دونوں ناولٹ اور ناول ’گیمبلر‘ ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ یہ آسان، دلچسپ، عام فہم اوربہت مزے کے ہیں۔

جاتے جاتے ’گیمبلر‘ ناول کے حوالے سے ایک اہم بات اور ایک واقعہ جس نے دستوئیفسکی کی زندگی ہی بدل ڈالی۔ ظ انصاری نے دستوئیفسکی پر اپنی کتاب میں یہ روداد رقم کی، بک کارنر کے امر شاہد نے ’گیمبلر‘ ناول کے دیباچے میں اسے شامل کر کے دستوئیفسکی کے میرے جیسے قارئین کو ممنون کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دستوئیفسکی کے جوان بھائی میخائیل کی بے وقت موت نے ان کے جریدے ’اپوخا‘ اور کتابوں کی اشاعت کے کاروبار کو سخت دھچکا پہنچایا۔ دستوئیفسکی قرضوں، بدنامیوں، نکتہ چینیوں سے تنگ آ کر ملک چھوڑنے کی فکر میں تھا۔ بڑی مشکل سے ایک پبلشر سے پیشگی تین ہزار روبل (روسی کرنسی) کی رقم مل گئی کہ مصنف یکم نومبر (1866) تک نیا ناول لکھ کر پبلشر کے حوالے کر دے گا۔ دستوئیفسکی نے اس رقم سے کچھ قرض چکایا اور اپنے حاجت مند عزیزوں کی مدد کی اور 150 روبل لے کر ’ویسبادن‘ شہر پہنچا تاکہ وہاں رولیٹ کے کھیل سے رقم جیت کر اپنی زندگی نہال بنا سکے۔ اس کے دل میں یہ بھی تھا کہ اس کی محبوبہ پولینا سسلووا ملے اور شاید وہ اس بار پگھل جائے۔ یہ حسینہ آئی، چند دن ساتھ بھی رہی، مگر پھر وہ اپنے اس بیزار عاشق کو جو اس کی انگوٹھی اور بندے تک رہن رکھوا کر بازی لگاتا تھا، اسے اپنے حال پر چھوڑ کر نکل گئی۔
دستوئیفسکی پر فاقوں کی نوبت آ گئی، بڑی مشکل سے وہ کرائے کا بندوست کر کے روس واپس آیا۔ اس نے اپنے انہی تجربات پر ناول ’گیمبلر‘ لکھنا شروع کیا۔ اس کے دوستوں نے ایک سنجیدہ اور مہذب لڑکی کو بطور سٹینو گرافر بلایا کہ وقت کم ہے، دستوئیفسکی بول کر ناول ڈکٹیٹ کرا دے۔ عظیم روسی ادیب پہلے تو پریشان رہا، مگر بہرحال اس نے ہمت کی اور مقررہ ڈیڈلائن پر یعنی 30 اکتوبر کو 40 ہزار الفاظ کا ناول ٹائپ کاپی بن کر مکمل ہو گیا۔ دستوئیفسکی اس لڑکی کی محنت، حوصلے، ضبط و احتیاط اور سلیقے کا قائل ہو گیا۔ یہ گریگوریونا سنتیکینا تھی، ایک تمیزدار مگر نسبتاً کم حیثیت گھرانے کی بیٹی۔

آخری واقعہ بھی دلچسپ ہے۔ دستوئیفسکی کا بعد میں امر ہو جانے والا ناول ’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘ ابھی نامکمل تھا۔ اس ناول کے لیے بھی سٹینوگرافر گریگوریونا کو بلایا گیا۔ وہاں ایک دن دستوئیفسکی نے ناول کی کہانی اس سے ڈسکس کی اور کہا کہ وہ مشورہ چاہتا ہے کیونکہ ناول کی ہیروئن ایک نوعمر لڑکی ہے، اس کی نفسیات کو بیان کرنا ہے۔ میں اگر ماسکو میں ہوتا تو اپنی بھیتجی سے مشورہ کر لیتا۔ اب تم ہی بتاؤ۔ کہانی یوں ہے کہ ایک پکی عمر کا مصور ہے، یعنی میرا ہم عمر، اس کا دنیا میں کوئی نہیں، باپ، ماں بہن، بیوی کوئی نہیں۔ وہ ہر طرف سے بیزار ہے۔ اس فیصلہ کن مرحلے پر اس کی ملاقات ایک ذہین اور حساس لڑکی سے ہوتی ہے تو کیا وہ لڑکی اسے سچی محبت دے سکتی ہے؟
اس کے بعد دستوئیفسکی نے اس سے وہ جملے بولے جو شاید اس کے لیے بولنا آسان نہ رہے ہوں گے۔ وہ کہنے لگا، ’فرض کرو، وہ لڑکی تم ہو اور وہ مصور میں ہوں۔ تم پر اپنی محبت جتاتا ہوں اور بیوی بننے کو کہتا ہوں تو صاف بتاؤ، تمہارا جواب کیا ہو گا؟‘ نوجوان سٹینو گرافر نے جو اس عظیم روسی ادیب کی مداح بن چکی تھی، سادگی سے جواب دیا، ’میرا جواب یہ ہو گا کہ مجھے آپ پسند ہیں اور زندگی بھر محبت کرتی رہوں گی۔‘
ہفتے بھر میں دونوں گھروں میں شادی کی تیاری شروع ہو گئیں۔ ہر شخص حیرت زدہ تھا کہ 45 برس کا نامور مگر بیمار (دستوئیفسکی کو مرگی کے دورے پڑتے تھے) اور قرض دار مصنف اور 19، 20 برس کی نادان سٹینوگرافر۔ اس کہانی کا انجام کیا ہو گا؟
چند دنوں بعد شادی ہو گئی، نوجوان آننا گریگوریونا سنتیکینا نے رفتہ رفتہ دستوئیفسکی کا دل جیت لیا۔ 14 برس ان کا ساتھ رہا اور جب عظیم روسی ادیب دنیا سے رخصت ہوا تو وہ اپنی زندگی کے صرف انہی 14 برسوں کا شکرگزار تھا، جس نے اسے مالی، ذہنی، خاندانی بے فکری اور اتنی راحت دی کہ وہ جوئے کی لت سے آزاد اور دنیا کے چار عظیم ناولوں کی تصنیف سے فارغ ہو چکا تھا۔
یہ عظیم دستوئیفسکی کی زندگی کی کہانی ہے، اس کے ناول، ناولٹ اور مختصر کہانیوں کی طرح طلسماتی، سحرانگیز، فسوں خیز۔












