راولپنڈی کی ایک نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں میں منگل کی رات 7 اکتوبر کو پولیس اور انتہائی مطلوب ملزموں کے درمیان مقابلہ ہوا۔
یہ پنجاب اور پشاور پولیس کا مشترکہ آپریشن تھا جو تین گھنٹوں تک جاری رہا جس میں پولیس کو انتہائی مطلوب ملزم سمیت تین افراد ہلاک ہوئے۔
پولیس کے مطابق دہشت گردی سمیت قتل اور 13 سنگین مقدمات میں مطلوب ملک آدم خان بھی پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
اسلام آباد میں پولیس مقابلہ، ایک اہلکار، دو ’دہشت گرد‘ مارے گئےNode ID: 636336
-
لاہور میں ایک اور پولیس مقابلہ، کیا مرنے والے واقعی ڈکیت تھے؟Node ID: 704271
ترجمان پشاور پولیس کے مطابق ملزم آدم خان نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے ایک گھر میں روپوش تھا۔ اس کے خلاف پشاور کے 7 پولیس سٹیشنوں میں مختلف مقدمات درج تھے جن میں قتل، اقدام قتل، بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے اور پولیس پر حملے کے مقدمات شامل ہیں۔
آدم خان پر پر 26 ستمبر 2025 کو انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت بھی مقدمہ درج ہوا تھا۔
آدم خان کون تھا؟
آدمے کی عرفیت سے مشہور ملک آدم خان کا آبائی علاقہ اگرچہ مہمند تھا مگر وہ پشاور میں رہتا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق آدم خان افغان رہائشی ہے جس نے جعلی دستاویزات کی مدد سے قومی شناختی کارڈ بنایا ہوا تھا۔ 34 سالہ آدم خان کی ذاتی دشمنیاں بھی تھیں جس کی وجہ سے وہ ہر وقت مسلح گارڈز ساتھ رکھتا تھا۔
پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے آدم خان پر سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد سے بھتہ لینے کا بھی الزام ہے جبکہ اراضی پر قبضہ کرنے کے مختلف مقدمات میں بھی مطلوب رہا۔
پشاور پولیس کے مطابق کچھ روز قبل آدم خان نے اپنے حریف سے بدلہ لینے کے لیے پشاور کی ایک موبل آئل فیکٹری میں تیل چھڑک کر آگ لگا دی جس کی ویڈیو ملزم نے خود سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی تھی۔
آدم خان عرف آدمے نے دیگر شہروں کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ بھی دوستی قائم کررکھی تھی تاکہ اس کا نیٹ ورک مضبوط ہو۔ ملزم کی شہر کے کاروباری افراد پر دہشت قائم تھی۔

آدم خان ایک مشہور ٹک ٹاکر کے طور پر بھی پہچانا جاتا تھا جس کے 2 لاکھ 83 ہزارسے زیادہ فالوورز ہیں۔ ملزم اسلحہ کی نمائش اور فائرنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شئیر کرتا تھا جبکہ اپنے دشمنوں تک دھمکی پہنچانے کے لیے ٹک ٹاک ویڈیوز کا سہارا لیتا تھا۔ آدم خان اسلحہ ہاتھ میں لہرا کر عام شہریوں سمیت پولیس افسروں کو بھی للکارتا تھا۔
ملک آدم خان کی مبینہ آڈیو وائرل
پولیس مقابلے میں مارے جانے والے مطلوب ملزم آدم خان نے موت سے پانچ دن قبل اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ سے ایک آڈیو کلپ شئیر کیا۔ مبینہ آڈیو پیغام میں آدم خان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے قتل کرنے کے لیے دشمنوں نے پولیس افسروں کو پیسے دیے ہیں۔ ان کا الزام تھا کہ ’پشاور کے پولیس افسر میرے بارے میں تفتیش کر رہے ہیں۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ مجھے نقصان پہنچایا جائے گا۔‘
مبینہ آڈیو میں ملزم وزیراعلیٰ اور آئی جی خیبرپختونخوا سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس معاملے کی انکوائری کروائی جائے تاکہ انہیں حقیقت کا علم ہو سکے۔
ملزم آدم کا کہنا تھا کہ ’اس کے بہت سے دشمن ہیں لیکن وہ ریاست کے خلاف کبھی نہیں گیا۔ اسے مگر اب مجبور کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل آڈیو میں آدم خان نے پشاور پولیس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔
آدم خان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کیوں ہوئی؟
پشاور کے سینئر کرائم رپورٹر احتشام خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پشاور پولیس نے 13 بڑے گینگز کی فہرست تیار کی ہے۔ یہ گینگز نہ صرف سوشل میڈیا پر کھلے عام اسلحہ کلچر کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ اپنے دشمنوں کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جرائم پیشہ افراد سماجی میڈیا کا منفی استعمال کر رہے ہیں جس سے معاشرے بالخصوص نوجوان طبقے پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔‘
کرائم رپورٹر احتشام خان کے مطابق آدم خان کا نام بھی اسی گینگ میں شامل تھا جو اپنے مخالفین اور شہریوں کو دھمکا کر اپنے مطالبات منواتے تھے۔ اسی سلسلے میں آدم خان کی پروفائلنگ ہوئی اور اس تک رسائی کے لیے پشاور پولیس دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کررہی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’آدم کے خلاف اتنی بڑی کارروائی اسی وجہ سے ہوئی کیونکہ انہوں نے براہ راست پشاور پولیس کو دھمکی دیکر ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا، ملزم آدم نے پولیس پر بڑا وار کرنے کی بھی دھمکی دی تھی۔‘
کرائم رپورٹر احتشام خان کا کہنا تھا کہ ’آدم خان کی گرفتاری کے لیے راولپنڈی پولیس کے ساتھ مل کر پشاور پولیس تیاری کررہی تھی مگر نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں چھاپے کے دوران ملزموں نے پولیس پر فائرنگ کی جس کے بعد پولیس مقابلے میں تین ملزم ہلاک ہو گئے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس نے سوشل میڈیا پر اسلحہ کی نمائش اور غنڈہ گردی کے الزام میں سات ہزار سے زائد مقدمات درج کیے ہیں۔‘