Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جرگے کے نام پر دھونس اور پیسہ، کیا پابندی سے نظام درست ہو پائے گا؟

جرگے میں پیسہ لینے کا کلچر انصاف کے تقاضوں پر اثرانداز ہوا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
جرگہ صدیوں پرانی ایک روایت ہے جو پشتون سماج کے اجتماعی شعور، انصاف اور مشاورت کی علامت رہی ہے۔ جنگ و جدل سے لے کر خاندانی تنازعات تک جرگہ ہمیشہ امن کے دروازے کھولنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔
کبھی یہ انصاف کا وہ منصفانہ منبر تھا جہاں بزرگوں کا ایک فیصلہ دشمنی کو دوستی میں بدل دیتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جب روایت نے قانون اور مفاد کے بیچ اپنی جگہ بنانی چاہی تو یہ نظام اپنی اصل روح سے دور ہوتا گیا۔
یہ جرگہ بعض علاقوں میں اب انصاف نہیں بلکہ آمدن کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک ایسا کاروبار جس میں فیصلہ پیسے سے خریدا جاتا ہے نہ کہ دلیل سے۔
اسی پس منظر میں پشاور پولیس نے حال ہی میں نجی جرگوں پر پابندی عائد کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جرگے کے نام پر پیسہ کمانے والوں کے خلاف کارروائی سے اس صدیوں پرانی روایت میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کیا جا سکے گا؟
کیپیٹل سٹی پولیس افسر نے نو اکتوبر کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں تمام ایس ایچ اوز کو مطلع کیا گیا کہ کسی بھی تنازع پر نجی طور پر جرگہ منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اعلامیے میں یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ پولیس کی نگرانی کے بغیر جرگہ نہیں کیا جائے گا۔ 
پولیس کے مطابق  حکومت کے نوٹس میں لائے بغیر پرائیویٹ جرگہ کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائےگی۔ 
جرگے پر پابندی کیوں لگائی گئی؟ 
پشاور کے ایس ایس پی آپریشنز مسعود احمد بنگش نے موقف اپنایا کہ ’جرگے کے نام پر شہریوں سے پیسے وصول کرنے کا کلچر عام ہو رہا ہے جس سے سب سے زیادہ غریب شہری متاثر ہو رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ  ’فریقین کے درمیان کسی بھی تنازع کے حل کے لیے شہر میں جرگوں کا انعقاد کرنے والا مافیا سرگرم ہے۔ یہ جرگے راضی نامے یا تنازع کے حل کے نام پر فریقین سے پیسے وصول کرتے ہیں جو کہ خلافِ قانون ہے۔‘

پشاور پولیس نے حال ہی میں نجی جرگوں پر پابندی عائد کی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایس ایس پی آپریشنز مسعود احمد کا کہنا تھا کہ ’جرگے قبائلی روایات کا حصہ ہے مگر کچھ لوگ اس نظام کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’شہر میں کسی کو جرگے کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، کوئی اگر ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔‘  
ایس ایس پی آپریشنز نے مزید واضح کیا کہ امن کے قیام اور پرانی دشمن کے تنازعات اور معاشرے سے برائی کے خاتمے میں جرگے کا کردار مثبت رہا ہے۔ پولیس نے ایسے جرگوں کو تائید کے ساتھ ساتھ تعاون بھی فراہم کیا ہے۔
جرگہ کیا ہے؟
قبائلی علاقوں میں مقامی مسائل کے حل کے لیے اسمبلی یا پنچائیت کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جرگہ کو روایتی مشاورتی مجلس بھی کہتے ہیں جس میں علاقے کے بزرگ اور معزز افراد مل بیٹھ کر مسائل پر گفت و شنید کر کے انصاف کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔
جرگے کا زیادہ تر رواج خیبر پختونخوا کے قبائلی پشتون علاقوں یا بلوچ قبائل میں ہے۔
جرگہ نظام کا غلط استعمال
جرگہ ایک قبائلی عدالتی نظام ہے جو آج بھی کچھ علاقوں میں رائج ہے تاہم خواتین کو پیش آنے والے واقعات میں ان کے کچھ فیصلے تنازعات کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے جرگے پر سوالات اٹھنے لگے اسی طرح زمین کے معاملات اور تنازعات میں پیسے بٹورنے کے لیے جرگے کا غلط استعمال شروع ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے جرگہ جیسی معتبر مشاورتی مجلس متنازع ہو گئی-

جرگے کا زیادہ تر رواج خیبر پختونخوا کے قبائلی پشتون علاقوں یا بلوچ قبائل میں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جرگے میں پیسہ لینے کا کلچر نہ صرف انصاف کے تقاضوں پر اثرانداز ہوا بلکہ مظلوم کو مالی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔
جرگے کے نام پر پیسہ یا بھتہ لینے کا کلچر 
قبائلی کا جرگہ سسٹم پشاور میں بھی عام ہے جہاں زمین کے تنازعات اور دشمنی ختم کرنے کے لیے جرگہ کیا جاتا ہے جس کے لیے باقاعدہ پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔
حاجی بزرگ شاہ مقامی جرگہ کمیٹی کے رُکن رہ چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آج کل جرگے کے لئے تگڑی پارٹی دیکھی جاتی ہے جو فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے پر مجبور کر سکے اور پھر فیصلہ کرکے دونوں فریقوں سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شہر میں باقاعدہ ایسے گروپ بنے ہوئے ہیں جن کا کام جرگہ کرکے پیسے لینا ہوتا ہے۔ یہ گروپ مسلح افراد پر مشتمل ہوتے ہے اور اکثر ایسے جرگوں میں تصادم کی واقعات بھی پیش آتے ہیں جن میں قیمتی انسانی جانیں چلی جاتی ہیں۔‘
ضلع نوشہرہ کے محمد شریف ( فرضی نام ) جائیداد کے تنازع میں جرگے کے دوران فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شہر میں جرائم پیشہ افراد نے جرگے کو منافع بخش کاروبار بنالیا ہے جس کی سرپرستی پولیس کے کچھ افسر بھی کرتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا رشتہ داروں کے ساتھ کمرشل مارکیٹ کا تنازع چل رہا تھا۔ عدالتی فیصلے کے باوجود ہمیں قبضہ نہیں دیا جارہا تھا پھر ایک شخص کی طرف سے مسلسل دباؤ ڈال کر ہمیں جرگے میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔‘

جرگے کی طرح ضلعی مصالحتی کونسل میں لڑائی اور تنازعات کا پرامن حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

محمد شریف کے مطابق جرگے میں دوسرے فریق کی حمایت میں مسلح گروپ نے ہم سے پیسوں کے عوض ملکیت دینے کی پیشکش کی جس کو ٹھکرانے پر ہمیں باقاعدہ دھمکیاں ملیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’تین برسوں میں چھ مختلف جرگہ گروپوں نے جرگہ کرنے کی کشش کی جس کے لیے معاوضہ بھی لیا گیا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔‘ 
متاثرہ شہری کے مطابق دو سال قبل جرگے کے دوران فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں ان کو ایک گولی لگ گئی تھی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جرگہ گروپس بھتہ مانگنے پر اتر آئے ہیں۔ خاندانی تنازعات یا لین دین میں یہ جرگے مداخلت کرکے معاملے کو حل کرنے کے نام پر پیسے مانگتا ہے ۔‘
جرگے کے لیے ڈی آر سی کا قیام
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شہریوں کے تنازعات کے حل کے لیے خیبر پختونخوا پولیس نے ضلعی مصالحتی جرگہ (ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل) قائم کیے ہوئے ہیں جن میں شہریوں کے مسائل کے لیے پولیس افسروں سمیت سماجی ورکز بھی کمیٹی کا حصہ بنائے گئے ہیں۔

جرگہ کے ایک سابق رکن کے مطابق پشاور میں باقاعدہ ایسے گروپ ہیں جن کا کام جرگہ کر کے پیسے لینا ہوتا ہے(فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

ڈی آر سی میں شہری اپنی درخواست لے کر کمیٹی کے سامنے پیش ہوتا ہے جس میں دوسرے فریق کو سننے کا باقاعدہ موقع دیا جاتا ہے۔
جرگے کی طرح ضلعی مصالحتی کونسل میں لڑائی اور تنازعات کا پرامن حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی بدولت اب تک سینکڑوں عوامی مسائل حل کرکے معاملات عدالت جانے سے پہلے حل کیے جا چکے ہیں۔
واضح رہے کہ ضلع چارسدہ میں دو ماہ قبل جرگے کے دوران فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں گولی لگنے سے ایک وکیل ہلاک جبکہ دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

شیئر: