کراچی کی ایک پُرہجوم سڑک پر 15 سال پہلے ہونے والی واردات آج ایک چونکا دینے والے انجام تک جا پہنچی ہے۔ وہی سیاہ رنگ کی پراڈو جو 2010 میں کراچی کے درخشاں تھانے کی حدود سے گن پوائنٹ پر چھینی گئی تھی، اب اسلام آباد میں جعلی نمبر پلیٹ کے ساتھ برآمد ہوئی ہے۔
گاڑی کی برآمدگی نے پولیس کی کامیابی سے زیادہ نظام پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ آخر ایک چوری شدہ گاڑی 15 سال تک جعلی دستاویزات کے ساتھ دارالحکومت میں کیسے چلتی رہی۔
اسلام آباد کے تھانہ کھنہ کی پولیس نے حال ہی میں ایک کارروائی کے دوران ایک پراڈو ایس یو وی برآمد کی، جس کی نمبر پلیٹ سی جی 333 آئی سی ٹی تھی۔ ابتدائی طور پر تو سب ٹھیک لگا مگر جب گاڑی کے چیسز اور انجن نمبر کو ایکسائز ریکارڈ سے ملا کر دیکھا گیا، تو انکشاف ہوا کہ یہ وہی گاڑی ہے جو 27 مارچ 2010 کو کراچی سے چھینی گئی تھی۔
مزید پڑھیں
پولیس کے مطابق 2010 میں گاڑی کے مالک نے کراچی ضلع جنوبی کے علاقے میں قائم درخشاں تھانے میں رپورٹ درج کرائی تھی کہ دو مسلح افراد ان کی گاڑی چھین کر فرار ہو گئے۔ اس وقت مقدمہ درج ہوا، مگر گاڑی کبھی برآمد نہ ہو سکی، نہ کوئی گرفتاری ہوئی اور نہ ہی کوئی سراغ ملا۔
واقعہ کیسے پیش آیا تھا؟
ضلع جنوبی پولیس نے اردو نیوز کو بتایا کہ مدعی مقدمہ کامران شہزاد کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی کا ڈرائیور نور زمان گاڑی لے کر خریداری کے لیے نکلا تھا اور ایک جگہ وہ خریداری کے بعد واپس گاڑی کے پاس آیا تو دو نامعلوم افراد، جن کی عمر تقریباً 30 سے 35 سال کے درمیان تھیں، قریب آئے اور گن پوائنٹ پر گاڑی لے کر فرار ہو گئے۔
ملزمان گاڑی کے ساتھ سیفٹی کٹ، رجسٹریشن بُک، انشورنس کاغذات، سی ڈی پلیئر اور دیگر اشیاء بھی لے گئے۔ مدعی کے مطابق انہوں نے اپنے طور پر گاڑی تلاش کی لیکن ناکامی کے بعد پولیس میں رپورٹ درج کرائی۔
پولیس نے مقدمہ دفعہ 392/34 تعزیراتِ پاکستان کے تحت درج کیا اور تفتیش اے وی ایل سی کلفٹن ٹاؤن کے حوالے کی۔

اب تقریباً 15 سال بعد یہ گاڑی اسلام آباد کے نواحی علاقے میں جعلی رجسٹریشن کے ساتھ چلتی پائی گئی۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق گاڑی کی مارکیٹ ویلیو اس وقت تقریباً ایک کروڑ روپے ہے جبکہ اس کا اصل رجسٹریشن نمبر بی ڈی 8950 ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کراچی سے چوری ہونے والی گاڑی اسلام آباد یا خیبرپختونخوا میں جعلی رجسٹریشن کے ساتھ برآمد ہوئی ہو۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں گاڑیوں کی چوری اور دوبارہ فروخت کا ایک منظم نیٹ ورک موجود ہے جو مختلف صوبوں میں پھیلا ہوا ہے۔
کراچی پولیس کے ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہماری سب سے بڑی کمزوری بین الصوبائی کوآرڈینیشن کی کمی ہے۔ اگر کسی گاڑی کی چوری کراچی میں رپورٹ ہوتی ہے تو اسلام آباد یا پشاور میں اس کا ریکارڈ فوری طور پر اپڈیٹ نہیں ہوتا۔ نتیجتاً وہی گاڑی دوسرے شہر میں نئے کاغذات کے ساتھ قانونی بن جاتی ہے۔‘
یہی شاید اس پراڈو کے ساتھ بھی ہوا۔ 2010 سے لے کر 2025 تک یہ گاڑی مختلف ہاتھوں میں گھومتی رہی، اور اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں جعلی نمبر پلیٹ کے ساتھ استعمال ہوتی رہی۔ کسی کو شک تک نہ ہوا۔
اسلام آباد کی کارروائی، اتفاق یا منصوبہ بندی؟
پولیس ذرائع کے مطابق یہ کارروائی خفیہ اطلاع پر کی گئی تھی۔ تھانہ کھنہ کی ٹیم نے ایک مشتبہ گاڑی کو روکا، جس کے کاغذات دیکھنے میں تو درست لگ رہے تھے مگر گاڑی کے چیسز نمبر میں تضاد تھا۔ جدید ڈیجیٹل تصدیق کے بعد معلوم ہوا کہ نمبر پلیٹ جعلی تھی اور اصل رجسٹریشن کراچی کی تھی۔

پولیس نے موقع پر کارروائی کرتے ہوئے گاڑی قبضے میں لے لی۔ تفتیش کے دوران جب کراچی پولیس سے رابطہ کیا گیا تو تصدیق ہوئی کہ یہ گاڑی درخشاں تھانے کے مقدمہ میں مطلوب ہے۔
پولیس اس کیس کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی دراصل نظام کی ناکامی کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر ریکارڈ کا تبادلہ بروقت ہوتا تو یہ گاڑی ایک دہائی پہلے ہی پکڑی جا سکتی تھی۔
گاڑیوں کی چوری کا منظم کاروبار
اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر سال سینکڑوں گاڑیاں مختلف علاقوں سے چوری ہوتی ہیں جن میں سے اکثر بازیاب نہیں ہوتیں۔ یہ گاڑیاں یا تو بلوچستان، خیبرپختونخوا یا شمالی علاقوں میں منتقل کر دی جاتی ہیں، جہاں جعلی رجسٹریشن بنا کر فروخت کی جاتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ نیٹ ورک نہ صرف عام مجرموں پر مشتمل ہے بلکہ بعض اوقات ان میں مبینہ طور پر ایکسائز دفاتر یا پولیس اہلکاروں کے نچلے درجے کے ملازمین کی شمولیت بھی پائی جاتی ہے جو جعلی فائلیں تیار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

نظام کی خامیاں اور اصلاح کی ضرورت
اس واقعے کے بعد ایک بار پھر عیاں ہوا ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کے ریکارڈ سسٹم میں اب بھی بڑی خامیاں موجود ہیں۔ اگرچہ نادرا اور ایکسائز کے درمیان ڈیٹا لنک کا نظام موجود ہے مگر صوبائی حدود کے پار معلومات کا تبادلہ ابھی تک مؤثر نہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق اس واقعے کے بعد ایک مربوط ’نیشنل وہیکل ڈیٹا بیس‘ کی ضرورت مزید اجاگر ہو گئی ہے۔ اس طرح چوری شدہ گاڑیوں کی فوری نشاندہی ممکن ہو سکے گی۔