Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی: ٹک ٹاک پر ’ویوز کی دوڑ‘ نے کیسے دو گینگز کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا؟

کراچ وہ شہر جہاں کبھی روشنیوں کے ساتھ خواب بھی جگمگاتے تھے، اب موبائل کی سکرینوں پر ورچوئل شہرت کی دوڑ نے ان خوابوں کو اندھیروں میں بدل دیا ہے۔ 
کبھی یہ شہر فن، موسیقی اور ثقافت کے نام سے پہچانا جاتا تھا، مگر آج وہی گلیاں سوشل میڈیا کی دشمنیوں سے لرز رہی ہیں جس کی حالیہ مثال محد خان کالونی اتحاد ٹاؤن میں پیش آنے والا افسوس ناک واقعہ ہے، جس میں دو نوجوان جان سے گئے۔
کراچی پولیس کے مطابق یہ تصادم دو مقامی ٹک ٹاک گروپوں 109 گروپ اور 313 گروپ کے درمیان پُرانی رقابت کے باعث پیش آیا۔ 
واقعہ محض ایک آن لائن چیلنج یا طنزیہ ویڈیو سے شروع ہوا، لیکن چند گھنٹوں میں سوشل میڈیا کی دشمنی حقیقی خون ریزی میں تبدیل گئی۔
سوشل میڈیا سے حقیقی محاذ تک
ایس ایس پی کیماڑی کیپٹن (ر) فیضان علی نے واقعے کے بعد فوری طور پر کارروائی کا حکم دیا۔ ان کی ہدایت پر ضلع کیماڑی پولیس نے محمد خان کالونی اور متصل علاقوں میں ایک گرینڈ سرچ اینڈ کومبنگ آپریشن شروع کیا۔
یہ آپریشن کئی گھنٹے جاری رہا، جس کے دوران پولیس نے دونوں متحارب گروپوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے۔
پولیس کے مطابق ’کارروائی میں مجموعی طور پر چھ ملزموں کو گرفتار کیا گیا، جن کی شناخت عظمت اللہ خان، محمد سیف، محمد وصال خان، سید عالم شاہ، عامر اور عمر کے ناموں سے ہوئی۔‘
ایس ایس پی کی رپورٹ کے مطابق ملزم محمد سیف کے قبضے سے ایس ایم جی رائفل، جبکہ عظمت اللہ کے قبضے سے 30 بور کی رائفل برآمد ہوئی۔ دیگر ملزموں سے بھی غیر قانونی اسلحہ ضبط کیا گیا۔
پولیس کی تفتیش میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ گرفتار ہونے والے چار ملزموں کا تعلق ٹک ٹاک 109 گروپ جبکہ دو کا تعلق 313 گروپ سے ہے۔
یہ وہی گروہ ہیں جن کے درمیان گذشتہ کئی ماہ سے آن لائن محاذ آرائی جاری تھی جو رفتہ رفتہ دشمنی میں تبدیل ہو گئی۔
قانونی کارروائی اور مقدمات کی تفصیل
پولیس نے ملزموں کے خلاف تھانہ اتحاد ٹاؤن میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ یہ مقدمہ نہ صرف قتل کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے بلکہ اس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں، تاکہ معاشرے میں خوف پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت مثال قائم کی جا سکے۔
علاوہ ازیں برآمد شدہ اسلحے پر سندھ آرمز ایکٹ کے تحت الگ مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان ملزموں کو تفتیشی ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے جبکہ دیگر مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے ٹارگٹڈ آپریشنز اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پس منظر: سوشل میڈیا سے حقیقی دشمنی تک
علاقہ مکینوں کے مطابق دونوں گروپوں 313 اور 109 کے درمیان تنازع کئی ماہ سے چل رہا تھا۔
یہ رقابت ابتدا میں محض ٹک ٹاک ویڈیوز تک محدود تھی، جہاں ایک گروپ دوسرے گروپ پر طنزیہ یا مزاحیہ تبصرے کرتا تھا لیکن جیسے جیسے ان کے فالوورز کی تعداد بڑھتی گئی، ویڈیوز کی زبان اور انداز بھی زیادہ اشتعال انگیز ہوتا گیا۔
اہلِ علاقہ کا کہنا ہے کہ پہلے تو یہ صرف ویڈیوز بناتے تھے، لیکن پھر ایک دوسرے کی بے عزتی کرنے لگے۔ دونوں گروپوں کے ارکان بعدازاں اسلحے کے ساتھ ویڈیوز بھی اَپ لوڈ کرنے لگے۔
ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پر ’فالوورز‘ اور ’ویوز‘ کی دوڑ نے کئی نوجوانوں کو تشدد کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ’ایریا سٹار‘ یا ’آن لائن ہیرو‘ کے طور پر پیش کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جانے کو تیار رہتے ہیں۔
پولیس اور انتظامیہ کا مؤقف
ایس ایس پی کیماڑی کیپٹن (ر) فیضان علی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم کسی بھی ایسے گروپ کو برداشت نہیں کریں گے جو شہر میں خوف و ہراس پھیلائے یا قانون کو ہاتھ میں لے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹک ٹاک یا کوئی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم اظہارِ رائے کے لیے ہے، جُرم کے لیے نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’محمد خان کالونی اور اطراف کے علاقوں میں پولیس گشت بڑھا دیا گیا ہے، اور دونوں گروپوں کے دیگر ارکان کی نشان دہی کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔‘
پولیس نے علاقہ مکینوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک سرگرمی یا غیرقانونی ویڈیوز کی اطلاع فوراً متعلقہ تھانے کو دیں۔
جامعہ کراچی کے شعبۂ کرمنالوجی کی سربراہ ڈاکٹر نائمہ سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر شہرت کا جنون نوجوانوں کو ’ریئلٹی اور فینٹسی‘ کی سرحد سے باہر لے جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب کوئی نوجوان اپنی ویڈیوز پر ہزاروں لائکس دیکھتا ہے، تو وہ ایک طرح کی مصنوعی شناخت بنا لیتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا اسے چیلنج کرے یا نیچا دکھائے، تو وہ اپنی عزت اور طاقت کے تحفظ کے لیے حقیقی دنیا میں لڑنے مرنے پر اُتر آتا ہے۔‘
نائمہ سعید کے مطابق ’پاکستان میں ڈیجیٹل لٹریسی کی کمی، والدین کی نگرانی کا فقدان، اور آسانی سے دستیاب اسلحہ اس بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔‘
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو سوشل میڈیا پر غیرقانونی ہتھیاروں کی نمائش اور تشدد پر اُکسانے والی ویڈیوز کے خلاف فوری قانون سازی کرنی چاہیے۔
 ٹک ٹاک، تفریح یا خطرہ؟
ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز نے نوجوانوں کو ایک نئی پہچان ضرور دی ہے، لیکن اِس کے منفی اثرات بھی اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ’گینگ کلچر‘ اور ’ایریا فیم‘ کے رجحانات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اب کئی نوجوان خود کو ’ڈیجیٹل مافیا‘ کے نمائندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
گذشتہ ایک سال میں کراچی، لاہور، اور پشاور میں کم سے کم 10 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں ٹک ٹاکرز کے درمیان لڑائی جھگڑے یا فائرنگ ہوئی۔
یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پر مقبولیت کی دوڑ حقیقی زندگی میں پرتشدد تنازعات کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔
محمد خان کالونی میں فائرنگ سے مرنے والے دو نوجوانوں کے اہلِ خانہ آج بھی صدمے میں ہیں۔
22 برس کے ابراہیم کے اہلِ خانہ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ابراہیم کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ویڈیو بنانے کا شوق ایک دن اُس کی جان لے لے گا۔ ‘
حقیقت تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی چمک دمک کے پیچھے جو اندھیرا چُھپا ہے، وہ اس وقت ہی ختم ہو سکتا ہے جب والدین، اساتذہ اور حکومت مل کر نوجوان نسل کی رہنمائی کریں۔

شیئر: