پنجاب حکومت کی تشہیری مہم سرخیوں کی زینت کیوں بن جاتی ہے؟
جمعہ 24 اکتوبر 2025 9:41
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں سیاست اور تشہیر کا امتزاج اکثر عوامی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ فروری 2024 میں مریم نواز شریف کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے ان کی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے اعلانات کیے اور ان کا پرچار میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت بڑے پیمانے پر کیا۔
سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن اور پرنٹ میڈیا پر چلنے والی ان تشہیری مہمات پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ جتنی بڑی تشہیر ہوتی ہے اس پر تنقید بھی اس سے بڑھ کر کی جاتی ہے۔ خاص طور پر ایسے واقعات جہاں سوشل میڈیا پر کسی وجہ سے کوئی چیز حقیقت سے مختلف پیش کی گئی ہو۔
اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ حال ہی میں پنجاب حکومت نے ایک سنسنی خیز اعلان کیا کہ ایمپیرئل کالج لندن، نواز شریف آئی ٹی سٹی میں اپنی ایک شاخ قائم کر رہا ہے جس کے ساتھ ایک جدید ہسپتال بھی بنے گا۔
یہ اعلان حکومت کے سرکاری اکاؤنٹس اور پی ایم ایل این کے ہینڈلز سے شیئر کیا گیا جسے وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ری ٹویٹ کر کے تقویت دی۔
مریم اورنگزیب نے بھی اسے پوسٹ کیا مگر جلد ہی ڈیلیٹ کر دیا لیکن یہ پوسٹ میڈیا میں سرخیوں کا حصہ بن گئی۔
21 اکتوبر کو ایمپیرئل کالج لندن نے ایک سرکاری بیان جاری کیا کہ یونائیٹڈ کنگڈم سے باہر نیا کیمپس کھلنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ بعد میں نواز شریف آئی ٹی سٹی کے ڈویلپرز سی بی ڈی (سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ اتھارٹی) نے وضاحت کی کہ یہ تعاون ’ایمپیرئل کالج ہیلتھ کیئر این ایچ ایس ٹرسٹ‘ سے ہے جو ایمپیرئل کالج لندن کا ایک الگ ادارہ ہے۔
لیکن اس وضاحتی بیان کے جاری ہونے تک تاخیر ہو چکی تھی۔ سوشل میڈیا پر یہ معاملہ وائرل ہو چکا تھا جہاں صارفین نے اسے غلط بیانی قرار دیا اور حکومت پر ’عالمی سطح پر شرمندگی‘ کا الزام لگایا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پنجاب حکومت تشہیر کی حکمت عملی کے حوالے سے تنقید کی زد میں آئی ہو۔
اس سے پہلے اگست 2024 میں وزیر اعلٰی مریم نواز نے ایک پوسٹ شیئر کی تھی جس میں نیویارک کے مشہور ٹائم سکوائر میں لگے ایک بڑے سے بِل بورڈ پر نواز شریف آئی ٹی سٹی کا اشتہار لگا ہوا تھی۔
اس سے تاثر یہ دیا گیا کہ پنجاب کے منصوبے اب بین الاقوامی مراکز میں ’ڈسکس‘ ہو رہے ہیں۔ تاہم بعد میں پتا چلا کہ سی بی ڈی نے اپنے پیسوں سے ٹائم سکوائر میں بل بورڈ پر تشہیر کا وقت خریدا تھا۔
سوشل میڈیا پر اس معاملے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کیونکہ یہ وہی دن تھے جب پاکستان میں انٹرنیٹ کی سپیڈ اور سوشل میڈیا ایپس بند کی گئی تھیں۔
صارفین نے سوال اٹھایا کہ جب پاکستان انٹرنیٹ کی بندش اور معاشی بحران سے نبرد آزما ہے تو عوامی پیسہ ٹائم سکوائر جیسے مہنگے مقام پر تشہیر کے لیے کیوں خرچ کیا گیا۔
موجودہ حکومت اپنے تشہیری معاملات پر کسی نہ کسی زاویے سے تنقید کی زد میں رہی ہے۔ اور اس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جب وزیر اعلٰی مریم نواز نے فروری 2024 میں حلف اٹھایا تو رمضان پیکج میں دیے گئے آٹے کے تھیلوں پر تصاویر نے تنقید کے اس نئے چیپٹر کا دروازہ کھولا۔
اپوزیشن کی جانب سے پنجاب حکومت پر ٹک ٹاک حکومت ہونے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت قومی موضوع میں تبدیل ہو گئی جب حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر 60 صفحات پر مشتمل حکومتی کارکردگی کا اشتہار تمام بڑے اخبارات کی زینت بنا۔
جبکہ حال ہی میں وزیراعلٰی مریم نواز کی تصاویر ہر پراجیکٹ پر دکھائی دی چاہے وہ الیکٹرک بسز ہوں یا صاف ستھرا پنجاب کی گاڑیاں، لیپ ٹاپس ہوں یا سکولوں کی تقریبات میں دیے جانے والی کھانے پینے کی اشیا۔ اور یہ تصاویر اب تنقید کا مستقل فیچر بنتی جا رہی ہیں۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسئلہ حکومت کی تشہیری مہم سے نہیں ہے۔ اصل مسئلہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا ہے جس کو پنجاب کی حالت سدھرنے سے مسئلہ ہے۔ جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں پنجاب میں گورننس بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ ویسے ویسے ایک سیاسی مائنڈ سیٹ کے دل میں غبار اٹھ رہے ہیں کہ ان کی جگہ یہاں ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘
’یہ فیک تشہیر نہیں ہے، ہر کام ہو رہا ہے۔ اور کام ہونے کے بعد اس کا کریڈٹ لینا ہر حکومت کا حق ہوتا ہے۔ بلکہ اچھی بات ہے کہ ان کی تنقید سے جن لوگوں کو ان کاموں کا نہیں بھی پتا ہوتا ان تک پہنچ جاتا ہے۔ وزیر اعلٰی مریم نواز نے جس طرح لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے یہ ان سیاسی جوکروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔‘
