Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’قوانین اور ثقافت سے واقفیت‘، خلیجی ممالک جاتے وقت کن ضوابط کا خیال رکھیں؟

پاکستان کے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے یورپی یونین کے مائیگرنٹ ریسورس سینٹر کے تعاون سے ایک وسیع آگاہی مہم کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور بیرون ملک روزگار کے خواہشمند افراد کو مقامی قوانین، ضوابط، نئی پالیسیوں اور محفوظ امیگریشن کے اصولوں سے آگاہ کرنا ہے۔
یہ مہم اس وقت شروع کی گئی ہے جب انسانی سمگلنگ، ایجنٹس کی سرگرمیوں اور غیرقانونی امیگریشن کے نئے رجحانات سامنے آ رہے ہیں۔ جن کے باعث متعدد پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
بیورو آف امیگریشن کے مطابق اس مہم کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ بیرون ملک جانے والے پاکستانی شہری تمام قانونی تقاضے پورے کریں اور وہاں کے قوانین و ثقافت سے مکمل واقفیت حاصل کریں۔
مہم کے تحت جاری کردہ تشہیری مواد میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ غیرقانونی ایجنٹس یا انسانی سمگلرز کے ذریعے سفر کرنا نہ صرف جرم ہے بلکہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صرف حکومتِ پاکستان سے منظور شدہ اور لائسنس یافتہ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز سے رابطہ کریں اور پروٹیکٹریٹ آف ایمیگرنٹس کے دفتر میں رجسٹریشن مکمل کیے بغیر ملک سے روانہ نہ ہوں۔
آگاہی مہم میں اوورسیز پاکستانیوں کو مقامی قوانین کی تازہ ترین معلومات فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ وہ کسی قانونی پیچیدگی یا خلاف ورزی سے بچ سکیں۔
مہم کے ایک حصے میں خلیجی ممالک کے نئے ضوابط پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، جن میں ملازمت کے معاہدوں، ادویات کے لیے اجازت نامے، اور گھریلو ملازمتوں کے اصول شامل ہیں۔

سعودی عرب: ادویات، معاہدے اور قوانین

سعودی عرب کے حوالے سے مہم میں سب سے پہلے جو اہم نکتہ اجاگر کیا گیا ہے وہ مخصوص ادویات کے بارے میں نئی پابندیوں کا نفاذ ہے۔ یکم نومبر 2025 سے سعودی قوانین کے تحت چند ادویات، جن میں اینزائٹی اور ڈپریشن کے علاج میں استعمال ہونے والی اور درد کی ادویات شامل ہیں، ان کے لیے پیشگی ای-کلئیرنس لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیرون ملک سفر سے پہلے مسافر کو سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے کنٹرولڈ ڈرگ سسٹم پر اپنی ادویات کے حوالے سے رجسٹر ہو کر آن لائن اجازت نامہ حاصل کرنا ہو گا، ورنہ سرحد پر یا ٹرانزٹ کے دوران ادویات ضبط یا مسافر کو حراست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سعودی لیبر قوانین، رہائش کے اصول اور ملازمت کے معاہدوں کی شرائط پر بھی خصوصی توجہ ضروری ہے۔ یہاں آنے سے پہلے معاہدے میں تنخواہ، کام کے اوقات، اوور ٹائم قواعد، رہائش کے معیار اور صحت یابی کے انتظامات واضح اور تحریری طور پر درج ہونے چاہییں۔

سعودی عرب کے حوالے سے مہم میں سب سے پہلے جو اہم نکتہ اجاگر کیا گیا ہے وہ مخصوص ادویات کے بارے میں نئی پابندیوں کا نفاذ ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

بیورو آف امیگریشن کا کہنا ہے کہ سرکاری منظور شدہ ایجنٹس کے ذریعے ہی معاہدہ کریں، معاہدے کی زبان اگر قابل فہم نہ ہو تو ترجمہ یا قانونی مشورہ حاصل کریں، اور کسی بھی غیرواضح شق پر دستخط نہ کریں تاکہ بعد میں استحصال یا قانونی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔

متحدہ عرب امارات: سیاسی سرگرمیوں کی پابندیاں

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں مقیم یا وہاں جانے والے پاکستانیوں کے لیے آگاہی مہم میں خاص ہدایت یہ ہے کہ وہاں سیاسی سرگرمیوں پر سخت پابندی عائد ہے۔ مقامی قوانین کے مطابق کسی بھی غیرمقامی شہری کا وہاں کی مقامی سیاست میں مداخلت، سیاسی ریلیوں یا مہم میں شرکت، یا آن لائن یا آف لائن ایسی کوئی سرگرمی جسے مقامی حکومت مقامی سیاست میں مداخلت تصور کرے، جرم بن سکتی ہے۔ بیورو کی وارننگ واضح ہے کہ ان پابندیوں کی خلاف ورزی پر گرفتاری، جرمانہ یا ملک بدری جیسے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں، لہٰذا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے مکمل پرہیز کریں اور اپنے قیام کے دوران مقامی قوانین کی پاسداری کو اولین ترجیح دیں۔
اسی سلسلے میں خلیجی ممالک میں گھریلو ملازمتوں کے حوالے سے عمر کی حد کا معاملہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ مہم میں بتایا گیا ہے کہ مخصوص ملکوں میں گھریلو ملازمتوں کے لیے کم از کم عمر کی شرط رکھی گئی ہے۔ بیورو آف امیگریشن کے مطابق خواتین کے لیے عام طور پر گھریلو ملازمت کے لیے کم از کم عمر 25 برس مقرر کی جاتی ہے تاکہ کم عمر خواتین کو ممکنہ استحصال سے بچایا جا سکے۔

غیرقانونی امیگریشن، خطرات اور بچاؤ کی تدابیر

غیرقانونی امیگریشن یا انسانی سمگلنگ کے رجحان کو مہم کا سنگِ میل قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ راستے عام طور پر امید کے جھانسے کے ساتھ سنگین اور جان لیوا خطرات لیے ہوتے ہیں۔ سمگلروں کے ذریعے سمندری یا زمینی غیرقانونی روٹس پر روانگی میں مسافر اکثر غیرمحفوظ کشتیاں، اوور لوڈ کشتیوں، جعلی دستاویزات اور غیرمعیاری ٹرانزپورٹ کا شکار ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈوب کر اموات، گرفتاری، جبری محنت یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات سامنے آتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار اور بیورو کی نشاندہی کے مطابق صرف سنہ 2025 میں اب تک ہزاروں افراد نے خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے کی کوشش کی ہے اور سنہ 2014 سے اب تک یہ تعداد 25 ہزار کے قریب جا پہنچی ہے، جو اس مسئلے کی سنگینی ظاہر کرتی ہے۔
اس کا واحد پائیدار حل سمگلنگ یا غیرقانونی راستے سے بیرون ملک جانے سے انکار ہے جس کے لیے آگاہی کی ضرورت ہے۔
آگاہی مہم میں تھائی لینڈ اور دیگر ممالک سے ملازمتوں کی پیشکش کے کسی جھانسے میں انے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

 

شیئر: