پاکستان کی سیاسی راہداریوں میں ایک بار پھر آئینی ترامیم کا طوفان برپا ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں نمبر گیم دیکھ کر لگتا ہے کہ اس بار حکومت کو وہ مسائل درپیش نہیں ہوں گے جو 26 ویں آئینی ترمیم کے وقت پیش آئی تھیں۔
3 نومبر کو بلاول نے اپنے ٹویٹ میں اعلان کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کا ایک وفد صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر چکا ہے اور پیپلز پارٹی سے 27ویں ترمیم کی منظوری کے لیے حمایت طلب کی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار، 26ویں ترمیم کے برعکس، نمبر گیم کافی حد تک حکومت کے حق میں ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ ترمیم جمعہ 7 نومبر کو سینیٹ میں پیش کی جائے گی، تاہم حکومت نے تاحال اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔
26 ویں ترمیم کا تلخ تجربہ اور نمبر گیم کی کشمکش
گزشتہ سال جب 26ویں آئینی ترمیم کا بل سامنے آیا تو حکومت کو اپنی دو تہائی اکثریت مکمل کرنے کے لیے دن رات ایک کرنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے باوجود چھوٹی جماعتوں، جیسے جے یو آئی (ف)، ایم کیو ایم اور دیگر، کو منانے میں کئی ہفتے لگے۔
مزید پڑھیں
مذاکرات، وعدے اور دباؤ کی سیاست دن رات ٹی وی سکرینوں پر چھائی رہی۔ بالآخر ترمیم تو منظور ہو گئی، مگر سیاست آج تک اس کے اثرات سے باہر نہیں آ سکی۔
اس وقت قومی اسمبلی میں حکومت کا انحصار آزاد اراکین اور چھوٹی پارٹیوں کی حمایت پر تھا، جبکہ سینیٹ میں صورتحال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ تھی، جہاں اپوزیشن کا پلڑا بھاری تھا۔
لیکن 27ویں ترمیم کا معاملہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ بلاول کے ٹویٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) 6 نومبر کو صدر زرداری کی واپسی پر اس بارے میں حتمی فیصلہ کرے گی۔
ترمیم کے مجوزہ نکات میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججز کے ٹرانسفر کا طریقہ کار،
نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں صوبائی حصے کی ضمانت ختم کرنا، آرٹیکل 243 میں تبدیلی، تعلیم اور فیملی پلاننگ کو وفاق کے دائرہ کار میں واپس لانا اور الیکشن کمیشن میں تقرریوں سے متعلق ڈیڈ لاک ختم کرنا شامل ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیم ’حکومتی قیادت میں‘ آ رہی ہے، نہ کہ کہیں سے ’پیراشوٹ‘ کے ذریعے مسلط کی جا رہی ہے۔
قومی اسمبلی میں نمبر گیم
27ویں ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت یعنی 224 ووٹ درکار ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت کو جے یو آئی (ف) کے بغیر بھی 237 اراکین کی حمایت حاصل ہے، جو مطلوبہ تعداد سے 13 ووٹ زیادہ ہے۔
اس وقت حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) کے 125، پیپلز پارٹی کے 74، ایم کیو ایم (پاکستان) کے 22، مسلم لیگ (ق) کے 5، استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 ارکان ہیں۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ ضیاء، نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) جیسے اتحادی بھی حکومت کے ساتھ ہیں۔ مزید برآں، چار آزاد اراکین بھی حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن کی تعداد 89 اراکین تک محدود ہے، جن میں 76 آزاد اراکین شامل ہیں۔ اگر جے یو آئی (ف) اپوزیشن میں جاتی ہے تو اس کے 10 ارکان، جبکہ بی این پی، مجلس وحدت مسلمین اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کا ایک ایک رکن بھی اس صف میں ہوگا۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں حکومت کی پوزیشن مضبوط ہے اور اسے 26ویں ترمیم کی طرح جے یو آئی (ف) کو منانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بل اس ہفتے ایوان میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
سینیٹ کی صورتحال
سینیٹ میں حکومت کے لیے صورتحال قدرے مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ یہاں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 ووٹ درکار ہیں۔
اس وقت حکومتی اتحادی جماعتوں میں پیپلز پارٹی کے 26، مسلم لیگ (ن) کے 20، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے 4، ایم کیو ایم کے تین، مسلم لیگ (ق) اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک سینیٹر ہے۔ یوں کل تعداد 61 اراکین بنتی ہے۔ جبکہ اپوزیشن کے پاس 35 اراکین ہیں۔
حکومت کو باقی 3 ووٹ کے لیے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، جے یو آئی (ف) یا آزاد اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔













