Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایک سال میں 50 ہزار کیسز‘، برطانیہ میں چاقو سے حملے کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟

برطانیہ میں گذشتہ چند برسوں کے دوران 13 سے 19 سال کی عمر کے 64 نوجوان قتل ہوئے (فائل فوٹو: اے پی)
برطانیہ میں چاقو سے حملوں کے بڑھتے واقعات نے لوگوں میں خوف اور تشویش پیدا کر دی ہے۔
سی این این کے مطابق سنیچر کی شام ایک ٹرین میں ہونے والے چاقو کے حملے میں نو افراد شدید زخمی ہوئے جس کے بعد ملک میں چاقو سے کیے جانے والے جرائم پر بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔
پولیس کے مطابق 32 سالہ برطانوی شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس پر 10 افراد کو قتل کرنے کی کوشش کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
برطانیہ کی وزیر داخلہ شبانہ محمود نے پارلیمنٹ میں واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’چاقو کے حملے ہمارے ملک میں بہت سی جانیں لے رہے ہیں اور اب اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنا ہوگا۔‘
برطانیہ میں اگرچہ بندوق اور دیگر ہتھیاروں پر سخت پابندیاں ہیں لیکن چاقو کے ذریعے کیے جانے والے جرائم اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں۔
برطانوی ادارے ’آفس آف نیشنل سٹیٹسٹکس‘ کے مطابق جون 2025 تک کے 12 ماہ کے دوران انگلینڈ اور ویلز میں 51 ہزار 527 چاقو حملے رپورٹ ہوئے جن میں 196 افراد ہلاک ہوئے۔ اگرچہ یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں پانچ فیصد کم ہے لیکن ماہرین کے مطابق یہ اب بھی تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 15 برسوں کے دوران چاقو کے جرائم میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گذشتہ دہائی میں تقریباً 43 فیصد قتل کی وارداتیں چاقو یا کسی تیز دھار آلے سے کی گئیں۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران 13 سے 19 سال کی عمر کے 64 نوجوان قتل ہوئے جن میں سے 83 فیصد کو چاقو سے مارا گیا۔

سنہ 2024 سے سنہ 2025 کے دوران انگلینڈ میں تین ہزار 494 افراد چاقو کے حملوں کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے (فائل فوٹو: اے پی)

نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے مطابق سنہ 2024 سے سنہ 2025 کے دوران انگلینڈ میں تین ہزار 494 افراد چاقو کے حملوں کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے۔ ان میں سے 90 فیصد مرد تھے اور 16 فیصد کی عمر 18 سال یا اس سے کم تھی۔
سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جہاں سنہ 2023 سے 2024 کے دوران بالترتیب 28 اور چار افراد تیز دھار ہتھیار سے قتل ہوئے۔
امریکہ میں سنہ 2023 میں ایک ہزار 704 افراد چاقو حملوں میں مارے گئے جبکہ انگلینڈ اور ویلز میں قتل کی شرح فی ملین آبادی 9.5 تھی جو امریکہ کی شرح 68 فی ملین کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں چاقو کے جرائم کے بڑھنے کی وجوہات میں بے روزگاری، غربت، سماجی دباؤ اور نوجوانوں میں تشدد کا رجحان شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیے تو چاقو سے ہونے والے حملے برطانیہ میں عام ہوتے جائیں گے جس سے عوامی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

مسئلے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟


الیگزینڈر نے کہا کہ بہت سے نوجوان اپنی حفاظت کے خوف سے چاقو ساتھ رکھتے ہیں (فائل فوٹو؛ اے ایف پی)

اکتوبر میں جاری کردہ ایک بریفنگ میں برطانیہ کی لوکل گورنمنٹ ایسوسی ایشن نے چاقو سے متعلق جرائم کو ایک ’کثیر جہتی مسئلہ‘ قرار دیا جسے صرف قانون نافذ کرنے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
برمنگھم یونیورسٹی کے سینٹر فار کرائم، جسٹس اینڈ پولیسنگ کے ڈائریکٹر اور ماہرِ اقتصادیات سدھارتھ بندیوپادھیائے نے سی این این کو بتایا کہ محرومی، ذہنی صحت کے مسائل، سکول سے خارج کیے جانے اور خاندانی مشکلات جیسے عوامل کسی فرد کو چاقو سے متعلق جرائم میں ملوث ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
لندن میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں کرمنالوجی کے ایسوسی ایٹ انٹرپرائز فیلو جیمز الیگزینڈر نے کہا کہ ایک دہائی قبل نوجوانوں کے ذریعے کیے جانے والے چاقو کے جرائم زیادہ تر گینگز سے متعلق ہوتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
الیگزینڈر نے کہا کہ ’پہلے پیش گوئی کی جا سکتی تھی۔ اب آپ پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگ چاقو کے جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں، چاقو رکھنے پر گرفتار ہو رہے ہیں یا چاقو مار رہے ہیں یا زخمی ہو رہے ہیں جن کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہوتا، اور نہ ہی کوئی اشارہ ہوتا ہے کہ وہ ایسا جرم کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ آج کے معاشرے میں تشدد یا اس کا خطرہ اتنا عام ہو گیا ہے کہ بہت سے نوجوان اپنی حفاظت کے خوف سے چاقو ساتھ رکھتے ہیں۔ اگر وہ خطرہ محسوس کریں تو وہ بھاگنے یا بغیر ہتھیار لڑنے کے بجائے چاقو استعمال کرتے ہیں، جو اکثر تباہ کن نتائج کا باعث بنتا ہے۔

شیئر: